ووٹر لسٹ سے نام غائب، گھروں سے ای وی ایم برامد، الیکشن کمیشن کب غلطی مانے گا

الیکشن کمیشن وہ ادارہ ہے جس سے غیر جانب داری کی امید کی جاتی ہے لیکن پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں جو کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا اس نے اس کے کام کرنے کے طریقہ پر کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

اتم سین گپتا

انتخابات کرانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن شاندار کام کرتا ہے اور ا س کے بدلے میں اسے کوئی اعزاز بھی نہیں چاہئے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کئی مرتبہ اس سے بڑی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اور کمیشن ان کو غلطی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔

گزشتہ ہفتہ کے دوران کئی معاملے سامنے آئے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں اور ان معاملوں کے روشنی میں آنے کے بعد الیکشن کمیشن کی صلاحیت پر شک پیدا ہو رہے ہیں اور سوال کھڑے ہو رہے ہیں ۔ کئی معاملوں کے ویڈیو سامنے آئے ہیں جن کو عام لوگوں نے اپنے اسمارٹ فون سے ریکارڈ کیا ہے ان میں سے کچھ معاملے مندر جہ ذیل ہیں۔

۔ حیدرآباد میں ڈی جی پی لیول کے آئی پی ایس افسر اور روڈ سیفٹی اتھارٹی کے چئیرمین ٹی کرشنا پرساد کا نام ہی ووٹر لسٹ سے غائب تھا جبکہ انہوں خود ووٹر لسٹ میں آن لائن ویریفائی کیا تھا۔

۔ مشہور بیڈمنٹن کھلاڑی جوالا گٹا کا نام بھی ووٹر لسٹ میں نہیں تھا جبکہ وہ بیتے قریب بارہ سال سے حیدرآباد میں رہ رہی ہیں۔

۔ تلنگانہ میں الیکشن افسران نے تسلیم کیا کہ انہیں اس قسم کی بے شمار شکایتیں موصول ہوئی ہیں اور انہوں نے اس کے لئے معافی بھی مانگی ہے۔

۔ راجستھان میں ووٹنگ کے بعد ہائی وے پر ای وی ایم مشینیں پڑی ہوئی پائی گئیں لیکن الیکشن کمیشن کی دلیل ہے کہ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے وقت گاڑی سے گر گئی ہوں گی۔

۔ سوشل میڈیا میں وائرل ہوئے ایک ویڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ خود کو ریلائنس جیو کے ملازمین بتانے والے تین افراد لیپ ٹاپ کے ساتھ اس اسٹرانگ روم میں پائے گئے جہاں ای وی ایم رکھی گئی تھیں۔

۔ بھوپال کے جہاں گیر آباد علاقہ میں ہوم گارڈس کی کینٹین سے پوسٹل بیلٹ پیپر برامد ہوئے۔

۔ مدھہ پردیش میں ہی پولنگ ٹیم کے افسران ایک ہوٹل میں ای وی ایم کے ساتھ پکڑے گئے۔

یہ کچھ معاملے ہیں جو سامنے آ گئے اور بہت ممکن ہے کہ بہت سارے معاملے اور ہوں جو سامنے نہیں آ پائے ہوں۔ اس سب پر بھی الیکشن کمیشن ان سارے معاملوں پر کچھ لاپرواہ نظر آیا کیونکہ اس کو کم از کم ان سارے معاملوں میں صفائی تو دینی ہی چاہئے تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ محض لاپرواہی تھی یا دیدہ دانستہ کیا گیا عمل تھا۔

ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن یہ دلیل دے کہ یہ ایک دو واقعات تھے جن کا انتخابی نتائج پر اثر نہیں پڑ تا۔ الیکشن کمیشن کی اس دلیل کو مان بھی لیں تب بھی الیکشن کمیشن کو وضاحت تو کرنی چاہئے تھی اور جن افسران کی ان معاملوں میں غلطی ہے ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔

ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ الیکشن کمیشن کو پیسہ سے لے کر ملازمین تک کے لئے حکومت پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے اور کمیشن کو یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہئے کہ اس کا نظام غلطیوں سے پاک نہیں ہے کیونکہ جو ملازمین الیکشن ڈیوٹی کے لئے حکومت سے اس کو ملیں گے ان میں لاپرواہ، بے ایمان اور نا اہل بھی ہو سکتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن تو یہ ہی تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کہ غلطیاں ہو سکتی ہیں ۔

الیکشن کمیشن تو یہ بھی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ آخر کسی اسمبلی حلقہ میں وہ صرف ایک بوتھ پر ہی ای وی ایم کو وی وی پیٹ سے ملاتا ہے ۔ آنکڑوں کے حساب سےدیکھیں تو اس کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ اگر وی وی پیٹ کا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا ہے تو پھر کم از کم ایک چوتھائی بوتھوں پر تو ایسا ہونا ہی چاہئے تاکہ سب کے شک دور ہو جائیں۔ لیکن الیکشن کمیشن تو کبھی اپنی غلطی مانتا ہی نہیں۔ دیگر سرکاری اداروں سے بدعنوانی اور لاپرواہی کے معاملے سامنے آتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن سے نہیں کیونکہ وہ تو مانتا ہے کہ وہ غلطی کر ہی نہیں سکتا۔ الیکشن کمیشن یہ کیسے مان سکتا ہےکہ اس کے سسٹم میں کوئی سیندھ نہیں لگا سکتا اس لئے الیکشن کمیشن کو جب ایسی شکایات موصول ہوں تو اس کو ان پر کارروائی کرنی ہی چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔