یوگی حکومت کس کو بے وقوف بنا  رہی ہے!

آکسیجن کی کمی کی وجہ سے موت نہیں ہوئی تو پھر آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے خلاف کارروائی کیوں؟

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

لکھنؤ: ڈائریکٹوریٹ جنرل آف میڈیکل ایجوکیشن (ڈی جی ایم ای) کی رپورٹ اور 12 صفحات پر مشتمل ایف آئی آر نے ایک بار پھر اتر پردیش کی یوگی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں 70 سے زائد بچوں کی موت سے متعلق ڈی جی ایم ای کی داخل رپورٹ اور ایف آئی آر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ علاج کے وقت آکسیجن کی سپلائی معطل ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اسٹور میں آکسیجن سلینڈر کی کمی نہ ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ گویا یوگی حکومت جھوٹی ثابت ہو رہی ہے جس کا کہنا تھا کہ اموات آکسیجن کی کمی سے نہیں ہوئی ہیں، دوسری طرف آکسیجن سپلائی کرنے والی کمپنی کے خلاف ایف آئی آر درج ہونےپر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، کیونکہ اسٹور میں آکسیجن دستیاب تھی تو کمپنی کے خلاف کارروائی چہ معنی دارد؟ سوال تو یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ اگر آکسیجن سلینڈر اسٹور میں موجود تھےتو سپلائی کیوں روکی گئی۔

ڈی جی ایم ای کی رپورٹ میں جہاں اسٹور میں آکسیجن موجود ہونے کے باوجود آکسیجن سپلائی نہ کیے جانے کی بات اُبھر کر سامنے آئی ہے، وہیں ایف آئی آر میں اموات کے اسباب کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے۔ ڈی جی ایم ای کی رپورٹ میں موت کی وجہ وہی بتائی گئی ہے جو یوگی حکومت نے ،معاملہ سامنے آنے کے بعد پہلے دن اپنے بیان میں کہاتھا۔ یعنی بچوں کی موت آکسیجن کی کمی سے نہیں بلکہ مرض کی وجہ سے ہوئی تھی۔ دراصل بی آر ڈی میڈیکل کالج سانحہ یوگی حکومت کے لیے ’جی کا جنجال‘ بن گیا ہے جس میں ان کی نااہلی اُبھر کر سامنے آ رہی ہے۔ اتر پردیش کے ڈی جی ایم ای مسٹر کے کے گپتا کی تحریر پر بروز اتوار لکھنؤ کے حضرت گنج تھانہ میں 9 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر تو درج ہو گئی ۔ لیکن یہ پوری کارروائی معاملے کی لیپا پوتی معلوم پڑ رہی ہے۔ ایف آئی آر جن افرادکے خلاف کی گئی ہے ان میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر راجیو مشرا، ڈاکٹر کفیل، ڈاکٹر ستیش، ڈاکٹر پورنیما، چیف فارماسسٹ گجانن جیسوال، اکاؤنٹینٹ سدھیر پانڈے، اسسٹنٹ کلرک، پشپا سیلس کے اُدے پرتاپ شرما اور منیش بھنڈاری شامل ہیں۔ ان پر 7 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ کچھ کے خلاف بدعنوانی، کچھ کے خلاف لاپروائی برتنے اور کچھ کے خلاف پرائیویٹ پریکٹس کرنے کا الزام ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔