انصاف کے لئے جدوجہد ترک کردی ہے، فاروق ڈار جس کو فوج نے بنایا تھا انسانی ڈھال

فاروق احمد ڈار کا کہنا ہے کہ ’’میں نے انصاف کے لئے اپنی جدوجہد ترک کردی ہے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر مجھے جیل بھیجا گیا تو میری بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: تین برس قبل آج ہی کے دن سری نگر پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخابات کے دوران ایک فوجی افسر کی طرف سے انسانی ڈھال کے طور استعمال کیے جانے والے فاروق احمد ڈار کا کہنا ہے کہ 'میں نے انصاف کے لئے اپنی جدوجہد ترک کردی ہے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر مجھے جیل بھیجا گیا تو میری بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کون کرے گا'۔ تاہم ان کا ساتھ ہی کہنا ہے کہ 'میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کو میں مرتے دم تک بھول نہیں سکتا ہوں، کیونکہ میرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے'۔

واضح رہے کہ وسطی ضلع بڈگام کے ژھل براس آری زال بیروہ کے رہنے والے 29 سالہ فاروق ڈار کو نتن لیتول گگوئی نامی میجر نے 9 اپریل 2017 کو سری نگر کی پارلیمانی نشست پر پولنگ کے دوران انسانی ڈھال بناکر اپنی جیپ کے آگے باندھا تھا۔ گگوئی نے فاروق (جس نے اپنے حق رائے دہی کا بھی استعمال کیا تھا) کو اپنی گاڑیوں کے قافلے کو پتھراؤ سے بچانے کے لئے اپنی جیپ کے ساتھ باندھا تھا۔ فوجی جیپ کے بونٹ سے باندھے گئے نوجوان فاروق ڈار کی تصویر اور ویڈیو نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 14 اپریل 2017 کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی تھی۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا تھا اس دن وادی میں پولنگ کے دوران شدید پتھراؤ ہوا تھا اور سیکورٹی فورسز کی فائرنگ میں کم از کم آٹھ نوجوان مارے گئے تھے۔


پیشے سے دستکار فاروق ڈار نے جمعرات کو یو این آئی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میں نے انصاف کے لئے جدوجہد شروع کی تھی لیکن میں نے اب وہ ترک کردی ہے۔ میں نے سوچا اگر مجھے جیل میں ڈالا گیا تو میری بوڑھی ماں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کے میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کو میں مرتے دم تک بھول نہیں سکتا ہوں کیونکہ بہت زیادہ زیادتی ہوئی ہے'۔ فاروق ڈار کے مطابق انہیں اس دنیا میں انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ہے اور جس ہیومن رائٹس کمیشن میں ان کا کیس چل رہا تھا اس کو پانچ اگست 2019 کے بعد ختم کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں ایسا راج ہے جس میں انصاف ملنا ناممکن ہے۔ میرا کیس ہیومن رائٹس کمیشن میں چل رہا تھا لیکن اس ادارے کو ختم ہی کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے دس لاکھ روپے معاوضے کی سفارش کی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ معاملے میں مقدمہ درج ہوا تھا لیکن عدالت میں اس پر کوئی سماعت نہیں ہوئی'۔ فاروق ڈار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں سب فوجی ایک جیسے نظر آتے ہیں کیونکہ جب انہیں انسانی ڈھال بنایا گیا تو کسی نے بھی ان پر ترس نہیں کھایا۔


انہوں نے کہا کہ 'میرے ساتھ ایک فوجی افسر نے زیادتی کی اور مجھے سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ مجھے انسانی ڈھال بنانے والوں کی تعداد 17 سے 18 تھی۔ ان میں سے کسی نے مجھ پر ترس نہیں کھایا۔ سب نے مجھے پیٹا'۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سنہ 2019 میں فوجی اہلکاروں نے مجھے دو تین بار ستایا۔ ایک بار گھر کا دروازہ توڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔ وہ مجھے کیمپ پر بلاتے تھے۔ پھر میں نے ضلع مجسٹریٹ بڈگام سے رجوع کیا جس کے بعد مجھے کیمپ پر بلانے کا سلسلہ بند ہوا'۔

فاروق ڈار 9 اپریل 2019 کو جس موٹر سائیکل پر سوار ہوکر گھر سے نکلے تھے کو انہوں نے اس کے بعد استعمال نہیں کیا ہے اور یہ موٹر سائیکل اب پچھلے تین سال سے زنگ کھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا: کہ 'جس بائیک پر میں نکلا تھا وہ پچھلے تین سال سے گھر کے آنگن میں زنگ کھا رہی ہے۔ اس بائیک کو فوجی اہلکاروں نے بہت نقصان پہنچایا تھا اور میرے پاس اس کو ٹھیک کرانے کے لئے پیسے بھی نہیں تھے۔ اس کی حالت انتی خراب تھی کہ اس کو کوئی خرید بھی نہیں سکتا تھا۔'


تین سال پہلے کیا ہوا تھا

فاروق ڈار آج ہی کے دن یعنی 9 اپریل کی صبح ووٹ ڈال کر اپنی پلسرموٹر سائیکل پر ہمسایہ گاؤں میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں تعزیت پرسی کے لئے جارہا تھا کہ فوج کی ایک گشتی پارٹی نے اس کو روک لیا اور موٹر سائیکل سے نیچے اتار کر جیپ کے بونٹ سے باندھ کر شام تک کئی دیہات کی سڑکوں اور گلیوں میں گھمایا پھرایا۔

بڈگام کے بیر وہ کیمپ کے 53 آر آر سے وابستہ میجر لیتول گگوئی نے ڈار کو پہلے زد و کوب کیا اور بعد میں پھٹے پرانے پھیرن میں ملبوس اس نوجوان کو جیپ کے بونٹ سے باندھ لیا۔ فوجی اہلکاروں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ انتباہی پیغام لکھ کر اس کے سینے پر چسپاں کیا۔ ڈار کی قریب چھ گھنٹوں تک مخلتف دیہات میں پریڈ کرائی گئی اس دوران مختصر وقفوں کے دوران اس کے فوٹو کھینچے گئے۔ اس پورے ماجرے کا مقصد ممکنہ احتجاجوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کو ڈرانا دھمکانا تھا۔


جیپ کے بونٹ پر باندھے بیٹھ کر کئی گھنٹوں تک خستہ حال سڑکوں پر گھمانے کی تکلیف فاروق ڈار کے لئے ہر گزرتے پل کے ساتھ ناقابل برداشت بن رہی تھی اور اس نے زندگی کی امیدیں چھوڑ دی تھیں۔ بعد میں اس شرمناک اور ہولناک واقعے کی ایک مختصر ویڈیو منظر عام پر آگئی جس سے وادی کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہریں بھڑک اٹھی تھیں اور اہلیان وادی نے فوج کی اس حرکت کو بدترین انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا تھا۔ تاہم لوگوں کی ناراضگی اور غصے میں اس وقت اضافہ ہوا جب اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے فاروق کو انسانی ڈھال بنانے والے میجر گگوئی کو نہ صرف توصیفی اعزاز سے نوازا بلکہ ان کی اس حرکت کو 'گندی جنگ' کے دوران اپنایا گیا غیر روایتی طریقہ قرار دیا۔

زائد از ایک سال بعد 10 جولائی 2017 کو جموں وکشمیر ہیومن رائٹس کمیشن نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ فاروق ڈار کو دس لاکھ روپے بطور معاوضہ ادا کرے۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے یہ کہتے ہوئے معاوضہ ادا کرنے سے انکار کیا تھا کہ اس پر (ریاستی حکومت پر) انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد نہیں کیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔