پنجاب کے کسانوں پر نوٹ بندی کا اثر ہنوز باقی

پنجاب کے کسانوں پر نوٹ بندی کا اثر ہنوز باقی
user

قومی آوازبیورو

’سبز انقلاب‘ والی ریاست پنجاب میں کسان کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہاں کے کسان اب بھی نوٹ بندی کے اثر سے پوری طرح باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا، اس وقت پنجاب اور اس کی پڑوسی ریاست ہریانہ میں کسانوں کے لیے بے حد برے دور کی شروعات ہوئی تھی۔ اس وقت دھان کی خرید کا وقت تھا۔ اس دوران کسان تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا لین دین کرنے والے تھے۔ لیکن 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو غیر قانونی قرار دیے جانے سے ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ان کے درمیان غیریقینی کی حالت تو پیدا ہوئی ہی، نئے نوٹوں کی عدم دستیابی، کو آپریٹو بینکوں کے کام بند ہو جانے اور دیہی علاقوں میں بینکوں کے برانچ کے آگے زبردست بھیڑ سے دونوں ریاستوں کی زرعی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔

ہوشیار پور ضلع کے ایک کسان بلجیت سنگھ نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’’کمیشن ایجنٹوں (دلالوں) نے ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ زیادہ تر کسان پہلے سے ہی قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور ان کے پاس قرض لوٹانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ خریدے ہوئے دھان کے پیسے دینے میں تاخیر ہوئی اور اس سے حالات بے حد خراب ہو گئے۔‘‘ انھوں نے ہزاروں کسانوں کی طرف بدحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے انتہائی ناراض لہجے میں بتایا کہ ’’جس طرح کے حالات پیدا ہو گئے اس سے تو ایسا لگتا ہے جیسے مودی حکومت کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اس فیصلے کا بوجھ زراعت میں ناقابل فراموش کردار ادا کر رہی ریاستوں میں غریبوں، قرض کے بوجھ تلے دبے کسانوں پر پڑے گا۔‘‘

ہریانہ کے دیہی علاقوں میں 8 نومبر کو نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد تین مہینوں تک بینکوں کے آگے لمبی قطاریں دیکھی گئیں اور اس دوران نئے نوٹوں کی فراہمی کی رفتار کافی دھیمی رہی۔ ساگر پور ضلع کے کسان رندیپ سنگھ نے بتایا کہ ’’کئی مہینوں تک کسانوں کو مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ دھان کی کٹائی کے بعد اگلی فصل کی بوائی کے لیے بیج اور کھاد نہیں خرید پائے۔‘‘ ملک کے جغرافیائی علاقوں کا صرف 1.54 فیصد پر مشتمل پنجاب مرکز کے خزانے میں تقریباً 50 فیصد اناج کی فراہمی کرتا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد زراعت اور باغبانی میں لوگوں کا حوصلہ لگاتار پست ہوا ہے۔

جنوب مغربی پنجاب کے باغبانی کسان امرجیت سنگھ سے جب اس سلسلے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’زرعی معیشت نوٹ بندی کے بعد سنبھل نہیں پائی ہے۔ لوگوں کا حوصلہ اب بھی ٹوٹا ہوا ہے۔ نوٹ بندی کے فیصلے کے بعد باغبانی کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ کنّو جیسے کھٹے پھل بازار میں تھے اور راتوں رات اس کا آرڈر منسوخ کر دیا گیا۔‘‘

بہر حال، اچھی بات یہ ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کی قیادت میں کانگریس حکومت نے قرض کے بوجھ تلے دبے کسانوں کے دو لاکھ روپے تک کے قرض معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس قدم سے حکومت کے خزانے پر 9500 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ضرور پڑے گا لیکن نوٹ بندی سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا، اس کو کچھ حد تک پر کرنے میں مدد ضرور ملے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔