مسلم ہی نہیں غیر مسلم خواتین کو بھی مسجد میں داخلے کی اِجازت، پھر سپریم کورٹ میں عرضی کیوں!

انتخابات کے وقت مسلم خواتین کے مسجد میں داخلے کا ایشو اٹھانا پوری طرح سیاست سے متاثر نظر آتا ہے، کیونکہ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مساجد میں مسلم ہی نہیں غیر مسلم مرد و خواتین کا داخلہ بھی ممنوع نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

سپریم کورٹ نے 16 اپریل کو ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی)، سنٹرل وقف کونسل، مرکزی حکومت اور نیشنل ویمن کمیشن کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ ملک میں مسلم خواتین کو مسجدوں میں داخلے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ غیر آئینی ہے اور خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دراصل یہ عرضی 15 اپریل کو سپریم کورٹ میں پونے کے ایک مسلم جوڑے کے ذریعہ داخل کی گئی تھی۔ عرضی دہندہ یاسمین زبیر احمد پیر زادہ اور ان کے شوہر زبیر احمد نذیر احمد پیرزادہ نے اپنی عرضی میں کہا کہ ’’قرآن اور حدیث میں کہیں بھی جنسی تفریق نہیں کی گئی۔ مسجد میں کسی خاتون کے داخلے پر پابندی کا عمل غیر آئینی ہے اور خاتون کے بنیادی وقار کو مسخ کرنے والا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستانی آئین کی دفعہ 14، 15، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے جو خواتین کے بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتا ہے۔‘‘

مسلم ہی نہیں غیر مسلم خواتین کو بھی مسجد میں داخلے کی اِجازت، پھر سپریم کورٹ میں عرضی کیوں!

یہاں حیرانی والی بات یہ ہے کہ مسجدوں میں مسلم خواتین کے داخلے اور باجماعت نماز پڑھنے تک کی اجازت حاصل ہے اور کہیں کسی طرح کی پابندی نہیں ہے، پھر بھی سپریم کورٹ میں ایسی عرضی داخل کی گئی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ دہلی کی جامع مسجد میں خواتین جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتی ہیں، رمضان میں ہندوستان کی کئی مساجد میں تراویح کی نماز بھی خواتین باجماعت پڑھتی ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حج کے دوران مکہ میں بھی خواتین کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں، اور کسی بھی مسجد میں داخلے اور نماز کی ادائیگی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ عرضی ایک حد تک سیاست سے متاثر نظر آتی ہے اور لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر محض مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔

مسلم ہی نہیں غیر مسلم خواتین کو بھی مسجد میں داخلے کی اِجازت، پھر سپریم کورٹ میں عرضی کیوں!

اس سلسلے میں جب ’قومی آواز‘ نے فتح پوری شاہی جامع مسجد کے امام مفتی محمد مکرم سے بات کی تو انھوں نے بھی اس طرح کی عرضی پر حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ ’’مسلم عورتوں کی کیا بات ہے، غیر مسلم عورتوں کے بھی مسجد میں داخل ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ کبھی سیاح کی شکل میں، کبھی دعاؤں کے لیے اور کبھی اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے الگ الگ مذہب کے مرد و خواتین کا مسجدوں میں آنا جانا تو بے روک ٹوک لگا ہی رہتا ہے۔‘‘ انھوں نے عرضی کے تعلق سے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’دراصل مسلم عورتوں کو کسی نہ کسی طرح ورغلانے کی کوشش لگاتار کی جاتی رہی ہے، چاہے طلاق کے نام پر ہو یا کسی اور مسئلہ کے نام پر۔ مسجد میں عورتوں کا داخلہ تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، یہاں بنیادی حق نہ ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

مسلم ہی نہیں غیر مسلم خواتین کو بھی مسجد میں داخلے کی اِجازت، پھر سپریم کورٹ میں عرضی کیوں!

مفتی محمد مکرم نے حالانکہ مسجدوں میں مسلم خواتین کی کم آمد کے حوالے سے اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ تو مسلم خواتین پر اللہ کی رحمت اور نعمت ہے کہ انھیں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی تنبیہ نہیں دی گئی۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ مردوں کے لیے مسجد میں جانا اور نماز پڑھنا ضروری قرار دیا گیا ہے جب کہ عورتوں کو سہولت دی گئی ہے کہ وہ گھروں میں نماز پڑھ سکتی ہیں۔ یہ عورتوں کے لیے نعمت ہے کیونکہ وہ گھریلو ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں، بچوں کو دیکھتی ہیں۔ عورتوں کے لیے تو اسلام میں کئی رعایتیں رکھی گئی ہیں، اور ظلم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

مسلم ہی نہیں غیر مسلم خواتین کو بھی مسجد میں داخلے کی اِجازت، پھر سپریم کورٹ میں عرضی کیوں!

ظاہری طور پر یاسمین زبیر احمد پیر زادہ اور زبیر احمد نذیر احمد پیر زادہ کی عرضی حقیقت سے بالکل برعکس نظر آتی ہے، لیکن اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ، سنٹرل وقف کونسل، مرکزی حکومت اور نیشنل ویمن کمیشن کو جو نوٹس عدالت عظمیٰ نے جاری کیا ہے، اس پر کیا کارروائی ہوتی ہے۔ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں کن بنیادوں پر اس عرضی پر سماعت آگے بڑھتی ہے۔ یہاں قابل غور یہ بھی ہے کہ جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس عبدالنذیر کی بنچ نے سماعت کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ وغیرہ کو نوٹس جاری کیا تو ساتھ ہی عرضی دہندہ سے کہا کہ ’’اس کیس کی سماعت عدالت صرف اس وجہ سے کر رہی ہے کیونکہ سبریمالہ معاملے پر فیصلہ سنایا گیا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Apr 2019, 8:10 PM