مسلم خاتون صحافی کی کوششوں سے صحافیوں کے لیے 600 پی پی ای کٹ کی فراہمی اور تقسیم

روبنیہ خان کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث لوگ گھروں میں بند ہیں۔ لیکن میڈیا اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہے، پھر ان کے تحفظ سے غفلت کیوں؟ اسی سوال نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ کچھ کوشش کرنی چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ممبئی: کورونا وائرس کا لفظ جیسے ہی کانوں میں پڑتا ہے یا نظروں کے سامنے آتا ہے، اسی کے ساتھ ہی ایک دوسرا لفظ تحفظ بھی ذہن کے دریچوں سے پھسل کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ قدرت نے بھی ہمارے جسم کی حفاظت کے لیے، ہمارے لاشعور میں احساسِ تحفظ کو ودیعت کر رکھا ہے۔ کورونا کا تو مرکزی نکتہ ہی تحفظ کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اور کورونا وائرس اور تحفظ و مدافعت ماہرین کے نزدیک جزولاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ممبئی میں مقیم روبینہ اے خان ( فو ٹو ایجنسی گیٹی امیجز) ، جو شعبہ صحافت سے وابسطہ فوٹو گرافر ہیں، چونکہ کھلی آنکھوں سے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنا، اور واقعات کے لامتناہی سلسلے سے کسی بھی اہم اور مرکزی نکتہ کو نکال کر پیش کرنا انکا فن اور پیشہ ہے، اسی لیے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں تحفظ کے مرکزی نکتہ پر ان کی نگاہیں مرکوز ہوئیں۔ انھیں احساس ہوا کہ کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ڈاکٹرس اور دوسرے طبی عملے، حفظانِ صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے،ٖ صفائی ملازمین اور محکمہ پولس سے وابستہ افراد کی خدمات بجا طور پر قابل فخر ہیں اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے جا رہے اقدامات بھی قابل تحسین ہیں، مگر کورونا وائرس کے خلاف اس لڑائی میں ایک اہم کڑی کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور وہ ان کے تحفظ کی طرف کسی کی کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں ہے۔


اسی لیے سب سے پہلے اپنی برادری کے تحفظ کا خیال ان کے ذہن میں آیا۔ کووڈ-19 کی وباء کے دوران اپنے فرائض منصبی انجام دینے والے صحافی، فوٹو گرافرس اور دوسرے کیمرہ مین وغیرہ کی زندگیوں کو کس قدر خطرات لاحق ہیں، اس کا اندازہ فیلڈ میں کام کرنے والے اپنے ساتھی صحافیوں اور فوٹو گرافروں کو دیکھنے اور ان سے گفتگو کرنے کے بعد انھیں ہوا۔ جس کے بعد انھوں نے سوچا کہ کس طرح سے ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتاہے۔ اور اس کے لیے انھوں نے ایک لائحہ عمل طے کیا۔ اس پر عمل کیا اور کامیابی حاصل کی۔

روبینہ اے خان نے اس ضمن میں یو این آئی کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کووڈ-19 اور اس کے سبب جاری لاک ڈاؤن کی صورتحال اور اس کے متعلق تمام ضروری معلومات و تفصیلات سے عوام کو واقف کرانے کی اہم ذمہ داری ادا کر رہے صحافی برادری کی خدمات کوجتنی پذیرائی ملنا چاہیے اور ان کے تحفظ کا جتنا خیال رکھا جانا چاہیے اتنا نہیں رکھا جا رہا ہے۔


"مارچ سے بھارت میں پھیلی اس وباء سے، نامہ نگاروں، کیمرا مینوں اور فوٹوگرافروں کی ایک بڑی تعداد بھی متاثر ہوئی۔ فیلڈ میں کام سرانجام دینے والے ہمارے ساتھیوں نے، کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اموات، بیماری اور معاشی تباہی کی المناک کہانیوں سے لوگوں کو واقف کراتے ہوئے خطرات کا سامنا کیا، ہمارے بہت سارے صحافی ساتھی خود بھی اس وباء کا شکار ہو چکے ہیں۔ کووڈ-19 کے ممبئی میں ہمارے بہت سے ساتھیوں کے درمیان کیے گئے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔"

"باہر کی زندگی کو کون دکھا رہا ہے؟" روبنیہ خان کہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث لوگ گھروں میں بند ہیں۔ لیکن میڈیا برابر اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہا ہے۔" پھر ان کے تحفظ سے غفلت کیوں؟"۔ اسی سوال نے مجبے سوچنے پر مجبور کیا اور میں نے طے کیا کہ اپنےطور پر کچھ کوشش کرنی چاہیے۔


23 اپریل سے انھوں نے اپنے گھر سے ہی کام کا آغاز کیا، اپنے کچھ جاننے والے احباب اور کاروباری افراد سے رابط قائم کر کے انھیں اس جانب توجہ دلائی۔ اور ان سے اس ضمن میں فنڈ فراہم کرنے کے لیے ربطہ قائم کیا جس کے نتیجہ میں وہ فیلڈ میں سرگرم اپنے صحافی برادری کےلیے 600 اعلی معیار کے ذاتی حفاظتی سازوسامان پی پی ای سوٹ خریدنے کے لئے فنڈ مہیا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے لیے انہیں صنعتکار نیس واڈیا، سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتاشا پوناوالا، فلمساز کرن جوہر، اداکار امریتا اروڑا، فلم کاسٹیوم ڈیزائنر آنا سنگھ، آرٹ ایڈوائزر وینڈی اے کوٹینو، بزنس وومن ایشا سکھی اور جیولر سدھارتھ کاسلی وال نے زبردست مالی تعاون دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔