کشمیر: کٹھوعہ واقعہ کے خلاف متعدد تعلیمی اداروں میں پُر تشدد مظاہرے

سیکورٹی فورسز نے پتھراؤ کے مرتکب احتجاجی طالب علموں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سری نگر : کٹھوعہ کی آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل واقعہ کے ملوثین کو پھانسی دینے کے مطالبے کو لے کر وادی کشمیر کے متعدد تعلیمی اداروں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے جار ی ہیں ۔ جمعرات کے روز احتجاجی طلباء کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھرپیں ہوئیں جن میں طالب علموں سمیت دو درجن افراد اور متعدد سیکورٹی فورس اہلکار زخمی ہوئے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ منگل اور بدھ کو مختلف تعلیمی اداروں میں بھڑک اٹھنے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر متعدد تعلیمی اداروں کو جمعرات کے روز احتیاطی طور پر بند رکھا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر کشمیر یونیورسٹی اور اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے جمعرات کو لئے جانے والے تمام امتحانات ملتوی کئے تھے۔

جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں سیکورٹی فورسز نے احتجاجی طلباء کو منتشر کرنے کے لئے مبینہ طور پر چھّرے والی بندوقوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں 14 افراد بشمول درجن بھر طالب علم زخمی ہوئے۔ اس دوران وادی میں جمعرات کو کم از کم دو درجن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل رہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ آنکھوں میں چھرے لگنے کی وجہ سے زخمی ہونے والے دو طالب علموں کو سری نگر منتقل کیا گیا ہے۔ ضلع پلوامہ سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق قصبہ ترال میں مسلسل دوسرے دن بھی ہڑتال کی گئی۔ ترال میں بدھ کے روز درجنوں طالبات سیکورٹی فورسز کی طرف سے آنسو گیس کے استعمال کی وجہ سے بیہوش ہوئی تھیں۔

شمالی کشمیر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع بانڈی پورہ کے اجس میں صبح کو درجنوں طالب علم سڑکوں پر نکل آئے اور آٹھ سالہ کمسن بچی کے قاتلوں کو پھانسی دے دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ احتجاجی طلباء جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، نے قصبہ میں احتجاجی مارچ نکالنے کی کوشش کی۔ تاہم جب سیکورٹی فورسز نے انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی تو طرفین کے مابین جھڑپیں شروع ہوئیں۔

سیکورٹی فورسز نے پتھراؤ کے مرتکب احتجاجی طالب علموں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا۔ اس واقعہ میں طالب علموں سمیت چھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ضلع بارہمولہ کے دلنہ اور وسطی ضلع بڈگام کے چاڈورہ میں بھی طالب علموں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق درجنوں مقامات پر کٹھوعہ واقعہ کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے پرامن طور پر اپنے اختتام کو پہنچ گئے۔ دریں اثنا وادی کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر متعدد تجارتی، مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے کمسن بچی کے حق میں جبکہ اس کے قاتلوں کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔

احتجاجیوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے۔ وہ کمسن بچی کے قاتلوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ شمالی ضلع بارہمولہ میں معذور افراد کی جانب سے ریلی نکالی گئی اور کمسن بچی کے قاتلوں کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاؤں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولس نے گذشتہ ہفتے واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔

کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کی رسانہ اور اس سے ملحقہ گاؤں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔