کشمیری طالب علم نوئیڈا میں لاپتہ، بازیابی کیلئے سرینگر میں احتجاج

احتشام کے والد نے کہا ’’ہمارے بچے کو بازیاب کرنے میں ہماری مدد کی جائے، ہم تمام جماعتوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی ہماری مدد کریں۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سرینگر: اترپردیش کے گریٹر نوئیڈا علاقہ سے لاپتہ ہونے والے شاردا یونیورسٹی کے کشمیری طالب علم احتشام بلال صوفی کے اہل خانہ نے جمعرات کو یہاں پریس کالونی میں احتجاج کرکے احتشام کی فوری بازیابی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شاردا یونیورسٹی میں بی آئی ایم ٹی سال اوم میں زیر تعلیم احتشام اور دوسرے ایک کشمیری طالب علم کو اکتوبر کے اوائل میں مقامی طالب علموں کے ایک ہجوم نے شدید زد وکوب کیا تھا جس کے بعد انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
احتشام زد وکوب کئے جانے کے واقعہ کے تین ہفتے بعد لاپتہ ہوگیا ہے۔ گمشدہ طالب علم کے اہل خانہ نے جمعرات کو یہاں پریس کالونی میں اپنا احتجاج درج کرکے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک، قومی رادھانی نئی دہلی اور اترپردیش کی حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ احتشام کو بازیاب کرنے میں ہماری مدد کریں۔

احتشام کے والد بلال احمد صوفی نے کہا ’ہماری یہاں کی گورنر انتظامیہ اور دہلی و اترپردیش سرکاروں سے اپیل ہے کہ وہ ہمارے بچے کو بازیاب کرنے میں ہماری مدد کریں۔ ہم یہاں کی تمام جماعتوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کریں۔ ہم چار بھائی ہیں۔ یہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ احتشام 28 اکتوبر کو نئی دہلی گیا ہوا تھا، اور واپسی کے دوران لاپتہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا ’ہم ہر روز اُن سے بات کرتے تھے۔ 28 اکتوبر کو حسب معمول میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ میں گھومنے کے لئے دہلی گیا ہوں۔ سہ پہر چار بجکر 29 منٹ پر میں نے ان کے ساتھ پھر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ میں میٹرو اسٹیشن کی طرف جارہا ہوں۔
میں نے پوچھا کہ کہاں کہاں گئے تو ان کا جواب تھا کہ میں ابھی آپ کو وہ سب تصویریں بھیجوں گا۔ اس کے بعد میں نے شام کے چھ بجے فون کیا تو ان کا فون بند آیا۔ تب سے ان کا فون مسلسل بند آرہا ہے‘۔ احتشام کے والد نے کہا کہ انہوں نے اپنے متعلقہ پولیس تھانہ خانیار اور گریٹر نوئیڈا میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے۔

انہوں نے کہا ’پھر میں نے رات کے بارہ بجے اپنے متعلقہ پولیس تھانے خانیار میں گمشدگی کی درخواست دی۔ میں دوسرے دن بھی پولیس تھانے پر گیا تو وہاں بولا گیا کہ ہم تلاشنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے گریٹر نوئیڈا میں بھی متعلقہ پولیس تھانے میں بھی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے‘۔

احتشام کے والد نے کہا کہ انہوں نے اپنے متعلقہ پولیس تھانہ خانیار اور گریٹر نوئیڈا میں گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ انہوں نے کہا ’پھر میں نے رات کے بارہ بجے اپنے متعلقہ پولیس تھانے خانیار میں گمشدگی کی درخواست دی۔ میں دوسرے دن بھی پولیس تھانے پر گیا تو وہاں بولا گیا کہ ہم تلاشنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم نے گریٹر نوئیڈا میں بھی متعلقہ پولیس تھانے میں بھی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے‘۔

بلال احمد نے اپنے بیٹے سے یونیورسٹی میں پیش آئے مار پیٹ کے واقعہ پر کہا ’اس سے پہلے چار اکتوبر کو وہاں کچھ لوگوں نے احتشام کو مارا پیٹا تھا۔ واقعہ کی جانکاری ملتے ہی میں 4 تاریخ کو گریٹر نوئیڈا کے لئے روانہ ہوا۔ 10 تاریخ کو میں واپس آیا۔ کیمپس میں قیام کے دوران میری وہاں یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی انتظامیہ سے بھی ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ درخواست دیں گے تو ہم ایف آئی آر درج کریں گے، میں نے ایف آئی آر کے لئے درخواست نہیں دی، میں نے کہا کہ یہ بچوں کا معاملہ ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی کا کیریئر برباد ہو۔ جب میں یہاں آیا تو انہوں نے دوبارہ مجھے فون کرکے بتایا کہ آپ کو کسی سے کوئی شکایت تو نہیں۔ میں نے اپنے جواب میں کہا کہ مجھے کسی سے شکایت نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے بچے کو پڑھنے کے لئے بھیجا ہے‘۔

بتادیں کہ شاردا یونیورسٹی میں زیر تعلیم مقامی طالب علموں کے ایک ہجوم نے 4 اکتوبر کو دو کشمیری طالب علموں کا شدید زد وکوب کیا تھا جس کے بعد انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا تھا۔

میڈیا رپورٹوں میں کشمیری طالب علموں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ شاردا یونیورسٹی میں مقامی اور افغانی طلبہ کے درمیان پچھلے کچھ وقت سے جھگڑا چل رہا تھا تو اس دوران 4 اکتوبر کو مقامی طلباء جن کی تعداد قریب 200تھی نے افغانی طلباکے خلاف یونیورسٹی میں احتجاج کیا اور انہیں وہاں سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔اس دوران جب کشمیری طلباء یونیورسٹی سے باہر آئے تواحتجاجیوں نے اُن کو پکڑ کر اُن کا شدید زدوکوب کیااور اس زدکوب کی وجہ سے احتشام اور عبید نامی دو کشمیری طالب علم شدید زخمی ہو گئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Nov 2018, 10:09 PM