جموں و کشمیر میں گورنر راج ختم، صدر راج نافذ
حکومت کے وجود میں نہیں رہنے کی صورت میں جموں و کشمیر کے لئے علیحدہ نظام ہے، جہاں پہلے چھ ماہ کے لئے صدر جمہوریہ کی منظوری سے گورنر راج نافذ کیا جاتا ہے

نئی دہلی: جموں و کشمیر میں گورنر راج کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد بدھ کو صدر راج نافذ کر دیا گیا۔ وزارت داخلہ نے آج شام کو اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
مرکزی کابینہ نے گزشتہ پیر کے روز ہی ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی تجویز کو منظوری دے دی تھی۔ صدر جمہوریہ رام ناتھ كووند نے ریاست میں صدر راج لگانے کی وزارت داخلہ کی سفارش پر آج دستخط کئے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 356 میں دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ریاست میں صدر راج نافذ کیا گیا ہے۔
صدر راج نافذ ہونے کے بعد نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ نے کہا، ’’میرا خیال ہے کہ صدر راج ختم ہونا چاہئے اور انتخابات کرائے جانے چاہئیں۔ لوگ کو ان نمائندگان کو منتخب کرنا چاہئے جو ان کے لئے کام کر سکیں۔‘‘
جموں و کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد 20 جون 2018 کو گورنر راج لگا دیا گیا تھا۔
حکومت کے وجود میں نہیں رہنے کی صورت میں جموں و کشمیر کے لئے علیحدہ نظام ہے، جہاں دیگر ریاستوں میں براہ راست صدر راج نافذ کیا جاتا ہے، وہیں جموں و کشمیر میں پہلے چھ ماہ کے لئے صدر جمہوریہ کی منظوری سے گورنر راج نافذ کیا جاتا ہے۔ اس دوران اسمبلی یا تو معطل رہتی ہے یا اسے تحلیل کر دیا جاتا ہے۔ اگر ان چھ ماہ کے اندر ریاست میں آئینی نظام بحال نہیں ہوتا تو صدر راج لگایا جا سکتا ہے۔
گورنر ستیہ پال ملک نے ریاست میں چھ ماہ سے جاری گورنر راج کی مدت 19 دسمبر کو ختم ہونے کے پیش نظر مرکزی وزارت داخلہ سے وہاں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کی تھی۔
گورنر نے گزشتہ ماہ پی ڈی پی لیڈر محبوبہ مفتی اور پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون کے اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے اور حکومت کی تشکیل کرنے کے دعووں اور جوابی دعوے کے درمیان 21 نومبر کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ گورنر نے حکومت تشکیل کے لئے خرید و فروخت اور مستحکم حکومت نہ بننے کا حوالہ دیتے ہوئے اسمبلی کو تحلیل کیا تھا۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر نے 1989 سے 1996 کے درمیان تقریبا چھ سال کی طویل مدت تک صدر راج دیکھا ہے، کیونکہ اس وقت کے وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس (این سی) کے رہنما ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے 1989 میں اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت کی طرف سے ریاست کے نئے گورنر کے طور پر مسٹر جگموہن کی تقرری کے بعد استعفی دے دیا تھا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں این سی کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اکتوبر 1996 میں صدر راج ختم ہو ا تھا۔
صدر راج نافذ ہونے کے بعد گورنر کی طاقتیں پارلیمنٹ کے پاس رہیں گی اور قانون بنانے کا حق پارلیمنٹ کے پاس ہوگا۔ اصولوں کے مطابق صدر راج میں بجٹ بھی پارلیمنٹ سے ہی پاس ہوتا ہے۔ اس وجہ سے گورنر راج میں ہی تقریبا 89 ہزار کروڑ روپے کا بجٹ پاس کرا لیا گیا۔ گورنر راج میں قانون بنانے اور بجٹ پاس کرنے کا حق گورنر کے پاس ہوتا ہے۔ صدر راج میں گورنر اپنی مرضی سے پالیسی اور آئینی فیصلے نہیں کر پائیں گے۔ اس کے لیے انہیں مرکز سے اجازت لینی ہوگی۔
بی جے پی کے حمایت واپس لینے کے بعد گزشتہ جون میں ریاست کی محبوبہ مفتی حکومت گر گئی تھی جس کے بعد ریاست میں گورنر راج لگایا گیا تھا جس کی چھ ماہ کی مدت آج ختم ہو رہی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔