صدارتی انتخاب: این ڈی اے امیدوار کے لیے راہیں آسان نہیں، 13 ہزار ووٹوں کی کمی

بھلے ہی این ڈی اے نے صدارتی انتخاب کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن ضروری ووٹ کس طرح حاصل کیا جائے، اس سلسلے میں کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔

راشٹرپتی بھون
راشٹرپتی بھون
user

تنویر

صدارتی انتخاب 2022 کے اعلان کے ساتھ ہی اب ووٹ جمع کرنے کی قواعد شروع ہو چکی ہے۔ برسراقتدار این ڈی اے نے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے، اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس کے ذریعہ نامزد امیدوار کو ہی کامیابی ملے گی۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے سبھی ووٹوں کو جوڑ لیا جائے تو بھی جیت کے لیے ضروری تعداد سے وہ تقریباً 13000 ووٹ کم ہے۔ یعنی این ڈی اے کو اپنے امیدوار کو کامیاب بنانے کے لیے دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔

بھلے ہی این ڈی اے نے صدارتی انتخاب کے لیے اپنے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن ضروری ووٹ کس طرح حاصل کیا جائے، اس سلسلے میں کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ مرکز میں برسراقتدار طبقہ کی نظر وائی ایس آر کانگریس اور بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) پر ہے۔ اگر وائی ایس آر یا بی جے ڈی کی حمایت مل جاتی ہے تو این ڈی اے امیدوار کی کامیابی کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ گزشتہ دنوں وائی ایس آر سی پی چیف جگن موہن ریڈی اور اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک نے دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کی تھی۔ حالانکہ یہ صاف نہیں ہو سکا کہ ان ملاقاتوں کے دوران کیا بات چیت ہوئی۔ دونوں علاقائی پارٹیاں ’لو پروفائل‘ رہی ہیں اور دونوں نے ہی 2017 میں صدارتی انتخاب میں بی جے پی کا ساتھ دیتے ہوئے رام ناتھ کووند کے لیے ووٹ کیا تھا۔ ایسے میں بی جے پی کو ایک بار پھر امید ہے کہ ان دونوں کی حمایت انھیں حاصل ہوگی۔


آئیے اب ذرا نظر ڈالتے ہیں کہ کس پارٹی کے پاس صدارتی انتخاب کے لیے کتنے ووٹ ہیں۔ آج کی تاریخ میں ریاستوں میں مجموعی طور پر 4790 اراکین اسمبلی ہیں اور ان کے ووٹوں کی قدر 542306 ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی تعداد 767 ہے اور ان کے ووٹوں کی قدر ہے 536900۔ اس طرح دیکھا جائے تو مجموعی طور پر صدارتی انتخاب کے لیے 1079206 ووٹ ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قدر ریاست کی آبادی اور اراکین اسمبلی کی تعداد کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ دوسری طرف اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ کی قدر کا تعین اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی مجموعی قدر کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد سے تقسیم دے کر ہوتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو این ڈی اے کے پاس 5 لاکھ 26 ہزار 420 ووٹ ہیں۔ صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے اسے 5 لاکھ 39 ہزار 604 ووٹ چاہیے۔ یعنی اس کے پاس 13183 ووٹ کم ہیں۔


اب دیگر پارٹیوں پر نظر ڈالی جائے تو یو پی اے کے پاس 2 لاکھ 59 ہزار 892 ووٹ ہیں۔ علاوہ ازیں وائی ایس آر کانگریس کے پاس تقریباً 43500 ووٹس اور بی جے ڈی کے پاس تقریباً 31700 ووٹس ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو وائی ایس آر کانگریس یا پھر بی جے ڈی میں سے ایک کا بھی ساتھ این ڈی اے کو مل گیا تو کامیابی طے ہے۔ باقی پارٹیوں کی بات کریں تو ترنمول کانگریس کے پاس 58118، سماجوادی پارٹی کے پاس 28688 اور بایاں محاذ کے پاس 24903 ووٹوں کی قدر ہے۔ یہ تینوں پارٹیاں ہمیشہ بی جے پی اور مرکز کی مودی حکومت کے خلاف ہی کھڑی نظر آتی ہیں، اس لیے ان پر این ڈی اے کو کوئی بھروسہ نہیں۔

اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کی طرف سے کسے امیدوار بناتے ہیں، اور اس امیدوار سے متعلق وائی ایس آر کانگریس اور بی جے ڈی کا رجحان کیسا رہتا ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ 21 جولائی کو ہوگی، اور ایسا تبھی ہوگا جب این ڈی اے امیدوار کے خلاف کوئی دوسرا امیدوار کھڑا ہوتا ہے۔ چونکہ غیر این ڈی اے پارٹیاں پہلے سے ہی منتشر ہیں اس لیے برسراقتدار طبقہ امید کر رہی ہے کہ ایک بار پھر ان کے ذریعہ طے کردہ امیدوار ہی عہدۂ صدارت پر بیٹھے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔