قیامت کی رات! یوپی، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا میں ووٹ شماری کے لیے تیاریاں مکمل، سبھی کی دھڑکنیں تیز

اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب کے نتائج پر لوگوں کی نظر اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس کا اثر 2024 کے لوک سبھا انتخاب پر پڑنے والا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر

اتر پردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، منی پور اور گوا میں اسمبلی انتخابات کے نتائج جمعرات یعنی 10 مارچ کو بھلے ہی علی الصبح سامنے نہ آئیں، لیکن صبح 8 بجے سے ہی رجحانات آنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس لحاظ سے آج یعنی 9 مارچ کی رات ان سبھی ریاستوں کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے قیامت کی رات ہوگی۔ ایک طرف جہاں مختلف پارٹیوں کے لیڈران ای وی ایم اسٹرانگ روم کی نگرانی کے لیے شب بیداری کرتے نظر آئیں گے، وہیں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے افراد، خصوصاً یوپی کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ کروٹیں بدلتے ہوئے رات گزاریں گے۔

10 مارچ کو ہونے والی ووٹ شماری کے لیے پانچوں ریاستوں میں تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ انتخابی کمیشن کی طرف سے سخت سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں اور کسی بھی طرح کی دھاندلی و بے ضابطگی سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، تو دوسری طرف سماجوادی پارٹی، کانگریس، عام آدمی پارٹی وغیرہ نے اپنے اپنے کارکنان کو بھی ووٹ شماری مراکز پر نظر رکھنے کی ذمہ داری دے دی ہے۔ خصوصاً اتر پردیش میں ہر ای وی ایم مشین کی ایسی نگرانی ہو رہی ہے کہ ذرا سی بھی ہلچل پر ہنگامی ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔


اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب کے نتائج پر لوگوں کی نظر اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ اس کا اثر 2024 کے لوک سبھا انتخاب پر پڑنے والا ہے۔ اگر بی جے پی کو اتر پردیش میں نقصان اٹھانا پڑا تو پھر مودی حکومت کے لیے مرکز میں برقرار رہنا بھی ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے سبھی سرکردہ لیڈروں نے اتر پردیش فتح کے لیے اپنا پورا زور لگا دیا ہے۔ اب جب کہ ایگزٹ پول میں بی جے پی کی بہتر کارکردگی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے تو بی جے پی میں خوشی کی لہر ہے، لیکن اپوزیشن پارٹیوں نے اسے پوری طرح مسترد کر دیا ہے۔ اب ایگزٹ پول کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط، یہ تو جمعرات کو پتہ چل ہی جائے گا۔ آئیے فی الحال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کس ریاست میں اسمبلی کی کتنی سیٹیں ہیں اور حکومت سازی کے لیے کسی بھی پارٹی کو کتنی سیٹ حاصل کرنی ہوگی۔

اتر پردیش:

ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں اسمبلی کی 403 سیٹیں ہیں۔ یہاں مکمل اکثریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 202 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہاں بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان سخت ٹکر دیکھنے کو ملے گی، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو بی ایس پی اور کانگریس جیسی پارٹیاں ’کنگ میکر‘ بھی بن سکتی ہیں۔


اتراکھنڈ:

بی جے پی حکمراں اتراکھنڈ میں اسمبلی کی 70 سیٹیں ہیں اور حکومت سازی کے لیے 36 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ اس ریاست میں بی جے پی کی حالت خستہ نظر آ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سال پارٹی نے تین وزرائے اعلیٰ بنائے۔ یعنی بی جے پی حکومت میں عدم استحکام اپنے عروج پر تھا۔ ایسے ماحول میں کانگریس کے لیے حالات کافی سازگار دکھائی دے رہے ہیں۔

پنجاب:

پنجاب میں اسمبلی کی 117 سیٹیں ہیں اور کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے 59 سیٹوں کی ضرورت ہوگی۔ کانگریس حکمراں پنجاب میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے، لیکن عآپ اور کانگریس میں سخت ٹکر کی امید ہے۔ کئی ایگزٹ پول میں عآپ بہ آسانی حکومت بناتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن کچھ سیاسی ماہرین نے اپنی رائے اس سے الگ پیش کی ہے۔ ان کے مطابق کانگریس اور عآپ کے درمیان برابر کا مقابلہ ہو سکتا ہے اور کانگریس اقتدار میں واپسی بھی کر سکتی ہے۔


منی پور:

60 اسمبلی سیٹوں والی ریاست منی پور میں حکومت سازی کے لیے 31 سیٹیں چاہیے ہوں گی۔ گزشتہ مرتبہ بی جے پی نے سب سے زیادہ 21 سیٹیں جیت کر این پی ایف، این پی پی اور ایل جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت تشکیل دی تھی۔ اس بار بھی بی جے پی کے لیے منی پور میں بہتر اشارے مل رہے ہیں۔ نتیجہ کس کے حق میں جاتا ہے اس کے لیے 10 مارچ کا انتظار کرنا ہوگا۔

گوا:

محض 40 اسمبلی سیٹوں والی ریاست گوا میں حالات انتہائی دلچسپ ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں یہاں سیاست نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ بی جے پی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی، لیکن کچھ دیگر اراکین اسمبلی کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس ریاست میں حکومت تشکیل دینے کے لیے 21 سیٹیں چاہئیں، اور کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وہ تن تنہا یہ نمبر حاصل کر لے گی۔ اس ریاست میں عآپ اور ترنمول کانگریس بھی قسمت آزمائی کر رہی ہے اور ان دونوں میں سے ایک پارٹی ’کنگ میکر‘ کے کردار میں بھی آسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔