دہلی فساد: پولس نے مجرموں کو بڑھاوا دینے کے لیے کہا ’جو چاہے کر لو‘

پولس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے لفظ ’آزادی‘ کے نعرے کا استعمال کیا، یہاں تک کہ خواتین مظاہرین کے سامنے پولس افسروں نے اپنے جنسی اعضا دکھائے۔

تصویر نواب علی اختر
تصویر نواب علی اختر
user

نواب علی اختر

نئی دہلی: دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنی میعاد ختم ہونے سے تین دن قبل چار رپورٹیں جاری کی ہیں۔ یہ تمام رپورٹیں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل، نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا اور دہلی کے تمام وزراء اور دہلی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کی گئیں۔انہوں نے یہ رپورٹ ایک پریس میٹنگ میں جاری کی۔ یہ رپورٹیں شمال مشرقی علاقوں میں مسلم خواتین کے بارے میں، سکھ فسادات کے متاثرین کی موجودہ صورت حال سے متعلق، شمال مشرقی ضلع میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ اور دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے19-2020پر مشتمل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ شہادتوں میں پولس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے واضح الزامات لگائے گئے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہ پیدا ہوتا ہے وہیں دہلی پولس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا ہے ۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہادتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیئے گئے تھے ۔ خواتین کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ پولس فورسز اور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پر حملہ کیا، خواتین پولس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔ رپورٹ میں پولس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے لفظ ’آزادی‘ کے نعرے کا استعمال کیا۔ اس میں کم از کم ایک واقعہ ایسا بھی شامل ہے جس میں خواتین مظاہرین کے سامنے پولس افسروں نے اپنے جنسی اعضا دکھائے ۔ زبانی زیادتیاں بھی فطری طور پر جنسی اور فرقہ وارانہ تھی۔

مزید کہا گیا ہ کہ جو کچھ ہوا اس سے واضح ہے کہ پولس مدد کے لئے آگے نہیں آئی اور متعدد واقعات میں خواتین کے خلاف تشدد میں ملوث رہی۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں کی متعدد شہادتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں یا تو تاخیر ہوئی ہے یا ان پر کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ مزید یہ کہ شکایات کی سنگین نوعیت کے باوجود پولس نے درج کی گئی ایف آئی آر پر عمل نہیں کیا۔ کچھ معاملات میں پولس اس وقت تک ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی جب تک کہ شکایت کنندہ نے نامزدملزمین کے نام اپنی شکایت سی نہیں خارج کردیئے ۔ کچھ معاملات میں شکایات کو پہلے سے درج کی گئی ایف آئی آرز میں غلط طور پر نتھی کرد یا گیا۔


شہادتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کچھ معاملات میں پولس ملوث تھی اور اس نے حملوں کو ہونے دیا۔ جہاں کچھ پولس عہدیداروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی وہاں متاثرین کے مطابق پولس افسروں نے اپنے ساتھیوں کو روک دیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے والے پولس والوں سے کہا کہ ’انہیں مت روکو‘۔ کچھ معاملات میں پولس محض تماشائی بن کر کھڑی رہی جبکہ ہجوم لوٹ مار، جلانے اور تشدد میں مصروف تھا۔ کچھ دوسرے معاملات میں پولس نے واضح طور پر مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا کہ’جو چاہے کرلو‘۔ کچھ شہادتوں میں بتایا گیا ہے کہ پولس اور نیم فوجی افسران نے حملہ ختم ہونے کے بعد مجرموں کو بحفاظت علاقے سے باہر منتقل کیا جبکہ کچھ معاملات میں، پولس نے متاثرین کو بھی بحفاظت باہرنکالا۔ دونوں مطالعات کو اس امید کے ساتھ دہلی حکومت کو پیش کیا گیا ہے کہ ان مطالعوں کی سفارشات کو دونوں پچھڑے ہوئے طبقات کی ترقی کے لئے رو بہ عمل لایا جائے گا۔

تیسری رپورٹ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہے جسے دہلی اقلیتی کمیشن نے فروری 2020کے اواخر میں دہلی کے شمال مشرقی ضلع میں بھڑکنے والے فسادات کی تحقیقات کے لئے گذشتہ9 مارچ کو مقرر کیا تھا۔130 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ تشدد کی بنیاد، وجوہات، مذہبی مقامات سمیت املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا ایک مکمل جائزہ ہے ۔


چوتھی اشاعت دہلی اقلیتی کمیشن کی سالانہ رپورٹ ہے جو دہلی اقلیتی کمیشن کی موجودہ ٹیم کے عہدے کا تیسرا اور آخری سال ہے جو19جولائی کو ختم ہوجائے گا۔ یہ قانونی تقاضا ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن ہر سال اپنی سالانہ رپورٹ سفارشات کے ساتھ دہلی حکومت کو پیش کرے جس پر حکومت غور کرے گی اور بعد میں کمیشن کے ایکٹ کے مطابق کارروائی کی گئی رپورٹ کے ساتھ حکومت اسے دہلی قانون ساز اسمبلی میں پیش کرے گی۔

250صفحات پر مشتمل سالانہ رپورٹ میں قومی راجدھانی علاقے میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کی ایک جھلک ملتی ہے۔ رپورٹ میں 11مساجد، پانچ مدرسوں، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچا یا گیا تھا۔ حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اوراسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علا متوں کو توڑ ڈالا اور جلادیا۔ فسادات کے دوران مسلم پڑوسیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بڑی تعداد میں علاقے کے مسلمان بے گھر ہوگئے ہیں۔ لاک ڈا ؤن کی وجہ سے متاثرین ان امدادی کیمپوں سے بھی نکال دئے گئے جہاں ان بے گھر افراد نے پناہ لی تھی۔


تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعہ جمع کردہ متعدد شہادتیں تشدد کے دوران پولس کی بے عملی کی گواہی دیتی ہیں حالانکہ ان کے سامنے تشدد پھیل رہا تھا۔ نیز ایمرجنسی کال نمبر پر بار بار فون کرنے کے باوجود پولس موقع پر نہیں پہنچی۔ شہادتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح پولس علاقے میں گشت کررہی تھی لیکن جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ان کو کسی کام کاآرڈر نہیں ملا ہے ۔ پولس نے غیرقانونی طور پر جمع ہونے والے کو منتشر کرنے ، یا تشدد کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے اور ان کو نظربند کرنے کے اقدامات کرنے کے اختیار کوبھی استعمال نہیں کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jul 2020, 12:11 PM