حیدرآباد: عثمانیہ یونیورسٹی کے پرفیسر ڈاکٹر قاسم گرفتار، ماؤنوازوں سے تعلق کا الزام

ذرائع کے مطابق یہ تلاشی ماؤنوازوں کے ساتھ پروفیسر کے مبینہ تعلقات کی بنیاد پر لی گئی ہے ان کے مکان سے کمپیوٹر ہارڈ ڈسک اور بعض اہم دستاویزات ضبط کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: پولیس نے شہر حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر قاسم کے مکان پر چھاپہ مارا اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ گجویل پولیس نے عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس میں واقع اسٹاف کوارٹرس میں تقریباً پانچ گھنٹوں تک ان کے مکان کی تلاشی لی۔

ذرائع کے مطابق یہ تلاشی ماؤنوازوں کے ساتھ پروفیسر کے مبینہ تعلقات کی بنیاد پر لی گئی ہے ان کے مکان سے کمپیوٹر ہارڈ ڈسک اور بعض اہم دستاویزات ضبط کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ چھاپہ گجویل اے سی پی نارائن کی قیادت میں مارا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پروفیسر قاسم کے معاملے کی جانچ 2016 کے ایک معاملہ کے تحت کی جا رہی ہے۔


اس معاملہ میں قاسم ملزم نمبر2 تھے جو مُلگ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے ان کی گاڑی سے انقلابی لٹریچر دستیاب ہونے کا دعوی کیا تھا۔ اسی معاملے میں سرچ وارنٹ کے ساتھ دوبارہ تلاشی لی گئی۔ اسسٹنٹ پروفیسرکے مکان پر پولیس کے چھاپے اوران کی گرفتاری سے عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس میں کشیدگی دیکھی گئی کیونکہ بیشتر طلبہ نے احتجاجی ریلی نکالنے کی کوشش کی۔

اس موقع پر عثمانیہ یونیورسٹی پولیس وہاں پہنچی جس نے صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران قاسم کی اہلیہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سال 2016 میں جھوٹے معاملہ میں ماخوذ کرتے ہوئے ان کے شوہر کے خلاف آج کارروائی کی گئی ہے۔ انھوں نے گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ خاتون نے بتایا کہ آج صبح کی اولین ساعتوں میں پولیس کے قریب 50 ملازمین ان کے مکان پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا اور یہ کہتے ہوئے اندر آنے کی اجازت طلب کی کہ ان کے پاس سرچ وارنٹ ہے۔


خاتون کے مطابق انھوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کا مکان یونیورسٹی کے احاطہ میں ہے اس لئے انھیں وائس چانسلر یا رجسٹرار کی اجازت حاصل کرنی چاہیے لیکن وہ دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئے اور انھوں نے گھر کی تلاشی لی۔ خاتون نے بتایا کہ سال 2016 میں ان کے شوہر کی گاڑی کو حادثہ ہوا تھا اوراس وقت ان کی گاڑی سے بعض کتابیں پولیس کو دستیاب ہوئی تھیں اور یہ کتابیں اسسٹنٹ پروفیسرکی جانب سے ہی تحریرکردہ ہیں اور وہ بازارمیں بھی دستیاب ہیں۔

انھوں نے اس معاملہ میں عدالت سے رجوع ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس اثناء میں سی پی آئی کے قومی لیڈر نارائنا نے پولیس کارروائی کی مذمت کی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ چند ماہ سے ہی انھیں پولیس کی جانب سے ذہنی طور پر ہراساں کیا جا رہا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔