ہندوستانی پولس مسلمانوں کے تئیں تعصب رکھتی ہے: رپورٹ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولس مسلم اکثریتی علاقوں کو ’منی پاکستان‘ سمجھتی ہے اور تھانوں میں ہندو رسومات اور علامتوں کی مسلسل نمائش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسلم طبقہ خود کو یک و تنہا محسوس کرتا ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آوازبیورو

سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ اور کوئیل کی سرپرستی میں کامن ہیلتھ ہیومن رائٹس انیشئیٹیو (سی ایچ آر آئی) نے 50 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی ہے جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے تئیں کئی سطحووں پر برتے جانے والے تعصب کا ذکر کیا گیا ہے۔

ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مسلم طبقہ اور پولس کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اقلیتی طبقہ کے خلاف ’مختلف سطحوں پر تعصب‘ اور مذہبی خیالات اور علامتوں کے ذریعہ ہندوؤں کی بہادری کی بات کرنا بے حد عام بات ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیسے پولس مسلم اکثریتی علاقوں کو ’منی پاکستان‘ سمجھتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تھانوں میں ہندو مذہبی رسومات اور علامتوں کی مسلسل نمائش کو نقصاندہ قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سب کی وجہ سے مسلم طبقہ خود کو یک و تنہا محسوس کرتا ہے۔

رپورٹ احمد آباد، رانچی، دہلی، لکھنؤ، بنگلورو، گوہاٹی، کوجیکوڈ اور ممبئی کے 197 لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جس میں زیادہ تر مسلم طبقہ سے وابستہ خواتین اور مرد شامل تھے۔ اس کے علاوہ سی ایچ آئی آئی نے 256 ریٹائرڈ مرد پولس اہلکاروں کے ساتھ ون ٹو ون انٹرویو بھی کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولس مسلمانوں کو ان کی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بناتی ہے اور انہیں پریشان کرتی ہے۔ کئی مرتبہ تو اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو بغیر کسی ثبوت کے مجرم مان لیا جاتا ہے اور انہیں لگاتار ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں ایک پولس افسر سے ہوئی بات چیت کو بھی شامل کیا گیا ہے، جنہوں نے کہا کہ پولس کسی مسلمان کو یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ مجرم نہیں ہے پھر بھی اسے حد سے زیادہ زد و کوب کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولس مسلم خواتین کو بھی نہیں بخشتی اور انہیں بھی کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولس جیسے ہی کسی خاتون کو برقع پہنے دیکھتی ہے اس کا رویہ فوراً تبدیل ہو جاتا ہے۔

احمد آباد کی ایک مسلم خاتون نے بتایا، ’’پولس اہلکاروں کو جب یہ معلوم چلتا ہے کہ ہم مسلم اکثریتی علاقہ سے ہیں تو وہ ہمیں بے عزت کرنے لگتے ہیں۔ کئی بار ہمیں ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے۔ ایک مرتبہ تو مجھ سے کہا گیا کہ برقع نکالو، بَم لے کر آئی ہو کیا!‘‘

سی ایچ آر آئی کی اس رپورٹ کے مطابق، مسلم طبقہ کے کئی لوگوں کو پولس سے کسی چیز کی شکایت کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ وہ پولس تھانوں میں خود کو الگ تھلگ اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

رپورٹ میں ممبئی کے ایک شخص کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ ’’گزشتہ دو تین سالوں میں پولس اہلکاروں کے درمیان تلک لگانے اور گاڑیوں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے فوٹو لگانے کا چلن بڑھا ہے۔ یہ مذہبی علامتیں ہمیں ان لوگوں سے الگ محسوس کراتی ہیں۔‘‘ رپورٹ میں پولس تھانوں میں ہونے والی ’شنی پوجا‘ اور ’ہتھیاروں کی پوجا‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں مسلم طبقات کو لگاتار پریشان کئے جانے کی بھی بات کہی گئی ہے۔ جن شہروں میں ٹیم نے دورہ کیا ہے ان سبھی کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ’منی پاکستان‘ کہے جانے کی بھی شکایت کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو غدار ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی وفاداری پر بھی شبہ کیا جاتا ہے۔

رانچی کے رہائشی ایک مسلم شخص نے بتایا کہ روضے کے وقت ایک ہندو کی بارات مسجد کے سامنے کافی دیر تک رکی رہی جس کی وجہ سے وہاں افرا تفری پھیل گئی۔ جب حالات کو قابو کرنے کے لئے پولس پہنچی تو 78 مسلمانوں اور محض ایک ہندو شخص کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق، لوگوں سے بات چیت میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مقامی پولس کی طرف سے مسلم طبقہ میں مخبر بھیجنے کا چلن بھی بہت بڑھ گیا ہے اور اس میں زیادہ تر مخبر مسلم طبقہ ہی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ایک شخص نے یہ بھی بتایا کہ جلسہ کے دوران ہونے والی تقریر کو کسی مخبر نے ایس ایچ او کو لائیو دکھایا تھا۔

اس رپورٹ میں انسداد ظلم و ستم قانون کو نافذ کرنے اور دلت-مسلمانوں کو اس میں شامل کرنے کے لئے 1950 اور 1951 کے صدارتی حکم نامہ میں ترمیم کی سفارش کی گئی ہے۔ سی ایچ آر آئی نے وزرات برائے اقلیتی امور کی طرف سے مقرر ماہرین کے گروپ کی جانب سے تیار کردہ مساوی مواقع کمیشن بل کو بغیر کسی تاخیر کے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی صلاح دی گئی ہے کہ محکمہ پولس میں مسلم طبقہ کے نوجوانوں کو بھی بھرتی کیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Dec 2018, 5:09 PM