علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پولس محاصرہ جاری

کچھ مفاد پرست ہندو-مسلم اتحاد جو اے ایم یو کی تہذیب رہی ہے اس کو مٹا کر فرقہ واریت کا اڈا بنا دینا چاہتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ابو ہریرہ

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گذشتہ روز اے ایم یو طلباء پر پولس کی لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کے بعدایک درجن سے زائد طلباء کے شدید طور پرزخمی ہونے کے بعد سے اے ایم یو کیمپس کے حالات مزید خستہ ہوگئے ہیں طلباء کے غصہ کے مدنظر ان کے تیوروں سے گھبرائے ضلع و پولس انتظامیہ نے کیمپس کے باہر چوطرفہ مسلم یونیورستی کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ وہیں دوسری جانب طلباء نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے باب سید پر دھرنا شروع کرتے ہوئے ڈیرہ جما لیا ہے جہاں اب سیاسی افراد کی آمد و رفت نے انتظامیہ کی پریشانی کو دوبالا کر دیا ہے۔ایک جانب جہاں طلباء یونین صدر کے ساتھ سینئر طلباء کے زخمی ہونے کے سبب طلباء نے بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ستیش گوتم سمیت اے ایم یو کیمپس میں داخل ہوکر اشتعال انگیز نعرے بازی کرنے والے ہندو وادی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر انہیں گرفتار کرنے اور ان کا ساتھ دینے والے پولس اہلکاروں کے خلاف بھی قانونی کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔دوسری جانب اے ایم یو ٹیچرس ایسو سی ایشن نے جرنل باڈی میٹنگ بلا کر طلباء سے احتیاط برتنے اور امن و امان بنائے رکھنے اور متحدہ طور پر نظم و نسق کی صورتحال کو قائم رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے طلباء کے حق میں کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ہے ۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
اے ایم یو کیمپس کے باہر پولس محاصرہ
اے ایم یو ٹیچرس ایسو سی ایشن نے جنرل باڈی میٹنگ میں ایک رائے سے یہ طے پایا کہ ان ہندووادی افراد کے خلاف انتظامیہ سخت اقدامات اٹھائے جنہوں نے اے ایم یو کیمپس میں اشتعال انگیز اور غیر قانونی نعرے بازی کرتے ہوئے اے ایم یو کیمپس میں متحدہ طور پر کھلے دھاردار اسلحے لےکرداخل ہونے کی ناکام کوشش کی، جبکہ جائے وقوع سے چند قدم کی دوری پر ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ قیام کئے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ یہ مسلح افراد کسی بھی طرح کی غیر قانونی حرکت کو انجام دے سکتے تھے، دوسرے ان پولس اہلکاروں کے خلاف بھی انتظامیہ سخت اقدامات اٹھائے اور ان کے خلاف برخاستگی کی کاروائی کرے جو کیمپس میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے اور مشتعل نعرے بازی کرنے والوں کی رہنمائی کر رہے تھے جیسا کہ متعدد ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پولس بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور وہ اے ایم یو اور وہاں کے طلباء برادری و علیگ برادری کے خلاف زور زور سے نعرے لگا رہے تھے یہ ایک غیر قانونی عمل تھا اور اے اے یو کے لئے یوم سیاہ کے طور پر بھی اس کو یاد کیا جاتا رہےگا۔

ان سب کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ اے ایم یو اولڈ بائز ایسو سی ایشن کی جانب سے بھی کیا گیا ہے۔اے ایم یو اولڈ بوئز ایسو سی ایشن کی جانب سے نائب صدر ڈاکٹر اعظم میر خان نے کہا ہے کہ اے ایم یو ایک قومی اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے اور یہاں کی روایت نہایت سیکولر رہی ہے اور ہمیشہ سے یہاں آنے والے طلباء متحدہ تہذیبوں سے ہونے کے با وجود آپس میں مل جل کر رہتے ہیں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق ایک دوسرے کے درمیان نہیں ہوتی ، لیکن چند مفاد پسند اور شر پسند افراد ملک کی گنگا- جمنی تہذیب کو مٹا دینا چاہتے ہیں اور ہندو مسلم اتحاد جو اے ایم یو کی تہذیب رہی ہے اس کو مٹا کر فرقہ واریت کا اڈا بنا دینا چاہتے ہیں جس کو اے ایم یو برادری کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دےگی اور اے ایم یو کا وقار بلند ہوکر رہےگا۔ انہوں نے کھلے منچ سے اعلان کیا کہ جب تک کہ ہندو وادی ان افراد کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی جو کیمپس میں داخل ہوکر فتنہ پھیلانا چاہتے تھے اس وقت تک طلباء یونین کو اولڈ بوئزایسو سی ایشن کی حمایت حاصل رہےگی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

بی ایس پی لیڈر حاجی ضمیر اللہ نے بھی طلباء کے دھرنے پر پہنچ کر طلباء کو حمایت دینے کا اعلان کرتے ہوئے ان پولس اہلکاروں کو جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا جنہوں نے معصوم اور بے گناہ طلباء پر لاٹھی چارج کی ، بے وجہ کاروائی کی اور ہندو وادیوں کی حمایت کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے انہیں تھانے لے جاکر چھوڑ دیا ۔انہوں نے ضلع مجسٹریٹ اور کل ہی تبادلہ پر آئے پولس کپتان کووارننگ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جیل جانے کے لئے تیار رہیں یا پھر اپنا تبادلہ کرا لیں، انہوں نے کہا کہ اگر بی ایس پی کی حکومت ہوتی تو یہ تمام ہندو وادی اور وہ پولس والے اب تک جیل جا چکے تھے جنہوں نے مسلم یونیورسٹی میں آگ لگانے کی نا کام کوشش کی ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے زخمی طلبا کے ساتھ گہری ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ سے جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے اورکیمپس کے امن و امان کو درہم برہم کرنے کے لئے ہندو یوا واہنی کے کارکنوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کیمپس کی صورت حال اور اے ایم یو برادری کے جذبات سے ریاستی اور مرکزی حکام کو بھی مطلع کیا ہے۔ وائس چانسلر نے سبھی متعلقہ افراد سے خاص طور سے اس بحران کی گھڑی میں امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

خبر لکھے جانے تک اے ایم طلباء کا لاٹھی چارج کرنے والے اور ہندو وادیوں کا ساتھ دینے والے پولس افسران و اہلکاروں کے خلاف کاروائی کئے جانے کو لےکراحتجاج جاری ہے اور اے ایم یو میں ضلع انتظامیہ ،پولس و خفیہ ایجنسیاں برابراپنی نظر بنائے ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 May 2018, 7:30 PM