رافیل جانچ سے بھاگنے والے پی ایم مودی کو ’آگسٹا‘ پر بولنے کا حق نہیں: انٹونی

سابق مرکزی وزیر دفاع اے کے انٹونی کا کہنا ہے کہ جو حکومت رافیل طیارہ معاہدہ میں ہوئے مبینہ بدعنوانی کی جے پی سی کے ذریعہ جانچ سے دور بھاگ رہی ہے اسے آگسٹا ویسٹ لینڈ معاملہ میں بولنے کا کوئی حق نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

’’وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کو آگسٹا ویسٹ لینڈ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر معاہدہ پر کانگریس کے خلاف کچھ بھی بولنے کا حق نہیں ہے۔ اس معاہدہ میں جیسے ہی بدعنوانی کی شکایت سامنے آئی، ہم نے سی بی آئی جانچ کی، ڈیل ختم کی اور ملک کا سارا پیسہ ملک میں واپس لایا۔ دوسری طرف رافیل پر مودی حکومت جے پی سی بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے سابق مرکزی وزیر دفاع اے کے انٹونی کا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’اس وقت بھی ملک کے تین ہیلی کاپٹر ہنڈن ائیر بیس پر رکھے ہوئے ہیں جو اس معاہدے کے تحت آئے تھے۔ ہم نے جتنا پیسہ اس کمپنی کو دیا تھا وہ سارا واپس مل چکا ہے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کی شروعات بھی ہم نے کی تھی۔‘‘

’قومی آواز‘ سے خاص بات چیت میں انٹونی نے کہا کہ ’’رافیل پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے ورنہ مودی حکومت اپوزیشن کے ذریعہ رافیل پر جے پی سی بٹھانے کے مطالبہ سے انکار کیوں کر رہی ہے، جب کہ لوک سبھا میں اکثریت کی بدولت اس جے پی سی میں بھی بی جے پی اراکین کو ہی اکثریت حاصل ہوتی۔ لیکن شاید مودی حکومت کو ڈر ہے کہ اگر رافیل پر جے پی سی بنائی تو اس کے رکن تمام متعلقہ فائلوں کو دیکھ سکیں گے اور متعلقہ افسران کو پیشی پر بلا کر ان سے پریشانی پیدا کرنے والے سول پوچھ سکیں گے۔‘‘

اے کے انٹونی مزید کہتے ہیں کہ ’’حال میں جس طرح سے کانگریس لیڈر سونیا گاندھی پر حملہ کروایا جا رہا ہے وہ مودی حکومت کی ’وِچ ہنٹنگ‘ یعنی عوامی اشتعال پیدا کرنے کی روش کا نمونہ ہے۔ آگسٹا ویسٹ لینڈ معاہدہ کو جان بوجھ کر عام انتخابات سے پہلے اٹھایا جا رہا ہے، لیکن مرکزی حکومت کی یہ کوشش ناکام ہوگی۔ اس کا اصل مقصد نہرو-گاندھی فیملی کو بدنام کرنا اور لوگوں کے ذہن سے ملک کی ترقی میں ان کے تعاون کو مٹانا ہے۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں۔‘‘

جب انٹونی سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں دفاعی معاہدے سیاسی ہوتے ہیں، تو انھوں نے اس کا سیدھا جواب نہیں دیا۔ البتہ انھوں نے یہ ضرور کہا کہ ’’میں جب وزیر دفاع تھا تو سبھی فیصلے ضابطوں کے مطابق کیے گئے، سبھی شرائط پر عمل کیا گیا۔ جب سارے فیصلے اور تقرری کا عمل مکمل ہو جاتا تھا تو حکومت فیصلہ لیتی تھی۔ مودی حکومت نے تو الٹا آگسٹا کے خلاف جانچ دھیمی کر دی۔ آگسٹا کی پیرنٹ کمپنی کو ’میک ان انڈیا‘ میں داخلہ دے دیا۔ کانگریس نے چھ غیر ملکی دفاعی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا جو تاریخی تھا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔