جموں و کشمیر: فون اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی لگاتار 29ویں دن بھی جاری

کشمیر کے سبھی 10 اضلاع میں مواصلاتی خدمات ہنوز معطل ہیں۔ وادی کے بیشتر قصبوں میں لینڈ لائن فون خدمات بحال کی جاچکی ہیں تاہم سری نگر کے لال چوک اور پائین شہر میں یہ خدمات پیر کے روز بھی معطل رہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: کشمیر دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے خلاف پیر کے روز مسلسل 29 ویں دن بھی بند رہا۔ وادی بھر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہے۔ تاہم پیر کے روز بھی سری نگر اور مختلف اضلاع کو سری نگر کے ساتھ جوڑنے والی سڑکوں پر نجی گاریاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔

کشمیر کے سبھی دس اضلاع میں مواصلاتی خدمات گزشتہ 29 دنوں سے معطل ہیں۔ اگرچہ وادی کے بیشتر قصبوں میں لینڈ لائن فون خدمات بحال کی جاچکی ہیں تاہم سری نگر کے لال چوک اور پائین شہر میں یہ خدمات پیر کے روز بھی معطل رہیں۔ وادی کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری دفاتر، بنکوں اور نجی دفاتر میں جاری ہڑتال اور مواصلاتی بندش کی وجہ سے معمول کا کام کاج بری طرح متاثر ہے۔


وادی میں جموں خطہ کے بانہال سے شمالی کشمیر کے بارہمولہ تک چلنے والی ریل خدمات بھی معطل ہیں۔ ریل گاڑیوں کو ریلوے اسٹیشن بڈگام میں کھڑی رکھی گئی ہیں جہاں سیکورٹی کے وسیع انتظامات ہیں۔ محکمہ ریلوے کے ذرائع نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ ریل خدمات کو مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر معطل رکھی گئی ہیں اور اس کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی خدمات بحال کی جائیں گی۔

یو این آئی اردو کے ایک نامہ نگار جس نے پیر کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا کے مطابق پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں عائد نہیں ہیں تاہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق جامع مسجد کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے اور کسی کو بھی اس کے دروازوں کے سامنے ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پائین شہر میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر سڑکیں سنسان نظر آرہی ہیں۔


ادھر سول لائنز اور بالائی شہر میں پیر کے روز بھی سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ 29 ویں دن بھی سڑکوں سے غائب رہا۔ سول لائنز اور بالائی شہر میں کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرے کو ناکام بنانے کے لئے بڑی تعداد میں فورسز اہلکار تعینات رکھے گئے ہیں۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق پیر کے روز بھی وادی کے دیگر 9 اضلاع میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کلی طور پر غائب رہا۔ تاہم اضلاع میں سڑکوں پر اچھی خاصی تعداد میں نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔

وادی میں معمول کی زندگی 5 اگست کو اس وقت معطل ہوئی جب مرکزی حکومت نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 ہٹادی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنانے کا اعلان کردیا۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین اسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے اسٹیٹ بنک آف انڈیا کی بیشتر شاخوں پر تالا لگا ہوا ہے۔ وہ افراد جن کے ایس بی آئی کی بنک شاخوں میں کھاتے ہیں نے بتایا کہ بنک شاخوں کے مسلسل بند رہنے سے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


وادی بھر میں فون اور انٹرنیٹ خدمات گزشتہ زائد از چار ہفتوں سے معطل ہیں جبکہ بیشتر تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جو تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں ان میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر ہے۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وادی میں عائد پابندیوں میں نرمی لانے اور لینڈ لائن و موبائل فون خدمات کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وادی کے بیشتر حصوں میں اگلے احکامات تک دفعہ 144 کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی جاری رہے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔