بھگوت گیتا کو اسکولی نصاب کا حصہ بنانے کی مانگ!

بلاس پور ہائی کورٹ میں کچھ تنظیموں نے مفاد عامہ کی عرضی داخل کرتے ہوئے ہندوؤں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کو اسکولی نصاب میں شامل کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

چھتیس گڑھ سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق تین غیر معروف سماجی تنظیموں نے بھگوت گیتا کو اسکولی نصاب میں شامل کیے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بلاسپور ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی داخل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیتا کو اسکول کے نصاب میں بھی شامل کیا جائے اور کالج میں تحقیق کا موضوع بھی بنایا جائے۔ عدالت نے اس عرضی کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے اور 15 جنوری کی تاریخ طےکی ہے۔ اس دن دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ گیتا کو اسکولی نصاب کا حصہ بنانے سے متعلق عدالت کے سامنے کس طرح کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں عدلیہ کا رخ کیا ہوگا۔

گیتا کو اسکولی نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ جن سماجی تنظیموں نے کیا ہے ان کے نام ’آل انڈیا ملیالی ایسو سی ایشن‘ (اے آئی ایم اے)، ’اکشر جیوتی’ اور ’ویر ویرانگنا‘ ہیں۔ داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’شری مد بھگوت گیتا مذہبی کتاب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل فلسفہ زندگی ہے۔‘‘ آل انڈیا ملیالی ایسو سی ایشن کے چیئرمین ایس کے مینن نے عرضی میں کہا ہے کہ ’’گیتا میں بھگوان شری کرشن نے زندگی سے متعلق پیغامات دیے ہیں۔ اس میں ایشور کی طاقت کو بتایا گیا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا ہے کہ ’’گیتا کے اسکول و کالج کے نصاب میں شامل نہیں کیے جانے سے طلبا اس میں موجود معلومات سے محروم رہ جاتے ہیں۔‘‘ عرضی میں اس کتاب کو اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کے بعد کالج میں تحقیق کا موضوع بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی نے گیتا کو نصاب میں شامل کر کے اسے لازمی سبجیکٹ بنا دیا ہے، اگر بیرون ملک میں گیتا کو لازمی بنایا جا سکتا ہے تو ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔

ہائی کورٹ نے عرضی کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے معاملے پر بحث کے لیے 15 جنوری طے کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ بحث کے دوران عرضی دہندگان کی جانب سے گیتا کی کاپیاں، اس کے مقاصد اور دیگر دستاویزات پیش کیے جائیں گے جو کہ عرضی کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ عرضی دہندگان کی جانب سے ایڈووکیٹ ایس کے مینن، کرن اگروال اور چندر پربھا کا نام پیروی کرنے والوں میں شامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jan 2018, 6:00 PM