لوگ سمجھ چکے 2014 میں بی جے پی نے انہیں دھوکہ دیا: طارق انوار 

وطن سماچار اور پیپل ٹرسٹ کے زیر اہتمام پریس کلب آف انڈیا میں ’سوشل میڈیا: چیلنجز بی فورسوسائٹی‘ کے عنوان سے سینمار کا انعقاد

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: آج جب مین اسٹریم میڈیا سرکار کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے میں ناکام ہورہا ہے ایسے وقت میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت بڑھ جاتی ہے۔ کہیں نہ کہیں مین اسٹریم میڈیا پر کوئی نہ کوئی دباؤ ضرور ہے جس کی وجہ سے وہ رافیل سے لے کر کسانوں ،نواجوں اور کالے دھن کی واپسی جیسے اہم ایشوز کو اٹھانے میں ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے ایسے میں سوشل میڈیا نے کافی حدتک اپنی ذمہ داری ادا کی ہے۔ ان خیالات کا اظہارلوک سبھا کے رکن اور آل انڈیا قومی تنظیم کے قومی صدر طارق انور نے کیا۔ وہ وطن سماچار اور پیپل ٹرسٹ کے زیر اہتمام پریس کلب آف انڈیا میں ’سوشل میڈیا: چیلنجز بی فورسوسائٹی ‘ کے عنوان سے منعقدہ سینمار کو خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے ، ایسے میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں تک اچھی اور سچی خبریں پہونچیں او ر سوشل میڈیا کی ہر خبر پر آنکھ بند کرکے یقین کرنا بالکل نامناسب ہے، ہمیں چاہیے کہ پہلے خبر کی خبریت اور معتبریت ضرور چیک کرلیں۔

طارق انور نے مودی سرکا رپر نشانہ سادھتے ہوئے کہاکہ مودی سرکار نے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ نوجوانوں سے لے کر کسانوں تک سیکڑوں مسائل منہ بائے کھڑے ہیں اور سرکار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب مودی سرکار کے چل چلاؤ کا وقت آچکا ہے اور لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کے ساتھ 2014میں دھوکہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا کو چاہیے کہ وہ بڑے پیمانہ پر سرکار کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کرے۔

معروف صحافی قمر آغا نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سکے کے دو رخ ہیں لیکن ہمیں چاہیے کہ اس کے مثبت پہلوؤں کو لوگوں کے سامنے لے کر جائیں تاکہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوسکیں۔قمر آغانے آگے کہاکہ مجھے لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پرنٹنگ پریس کے بعد دوسرا سب سے بڑا انقلاب ہے اورہمیں اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ آج انٹرنیٹ نے کتابوں کے بوجھ سے لے کر مسافت تک ہر چیز سے لوگوں کو آزاد کردیا اور ہر چیز ایک کلک پر موجود ہے۔

آج تک کے ایڈیٹر پانی نی آنند نے کہاکہ سوشل میڈیا کی جہاں افادیت ہے وہیں اس کے مہلک نتائج بھی ہیں۔ آپ خود سوچئے کہ ایک کلک پر آپ لوگوں کی زندگیاں بچا سکتے ہیں اور ایک ہی کلک پر آپ خوشی کے ماحول کو ماتم میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جس طر ح سے سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلایا جارہاہے اس کو لے کر ہمیں کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے وطن سماچار کی کوششوں کوسلام کرتے ہوئے کہاکہ ایسے موضوع پر بحث کافی ضروری اور اہم ہے کیونکہ ایسی بحثوں سے ہی سماج کے تانے بانے کو بنائے رکھا جاسکتاہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نتن گپتا نے کہاکہ سوشل میڈیا نے لوگوں کے خیالات کو بیڑیوں سے آزاد کردیا ہے او راظہار رائے کی آزادی کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتاہے لیکن ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارے عمل سے کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ انہوں نے کہاکہ ہم باپو کے دیش کے باشندے ہیں اور عدم تشدد ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔

ڈاکٹر تاج الدین انصاری نے طارق انور کے استعفیٰ کی ستائش کرتے ہوئے کہاکہ جس طرح سے طارق انور کے استعفیٰ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کہرام بپا ہوا اور چند سکنڈ کے اندر پوری دنیا میں یہ خبر پھیل گئی اس سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سوشل میڈیا کتنا پاور فل ہے۔آل انڈیا قومی تنظیم دہلی پردیش کے صدر عبدالسمیع سلمانی نے لوگوں سے اچھی اور عام آدمی کے فائدیے کی خبریں شیئر کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں ایسی مہم سے ہرگزنہیں جڑنا چاہیے جس سے عام آدمی کا نقصان ہوتا ہو۔

انہوں نے کہاکہ یہ دیش گاندھی ، نہرو ،آزاد اور پٹیل کا دیش ہے یہ بات ہم لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے اور اس ملک میں تہذیب اور عدم تشدد کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اس کو اکھاڑنے والے خود ختم ہوجائیں گے لیکن اس کی جڑیں کبھی ختم نہیں ہونے والی ہیں ، لیکن ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اس موقع پر پروگرام کے آرگنائزر ڈاکٹر مدحت حسین نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لوگوں سے سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی اپیل کی، جبکہ وطن سماچار کے ایڈیٹر محمد احمد نے پروگرام کی نظامت کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر حکیم ایاز الدین ہاشمی ، سفیان ابراہیم جن، قبول احمد، ڈاکٹر کش کمار سنگھ، بلال احمد، جاوید قمر، سعد بن عمر، جاوید اختر، عامر سلیم خان، نند لال شرما، محمد فیصل اجیت کمار، ڈاکٹر ابونصر، فرزان قریشی ، ڈاکٹر ریما ایرانی اورنورالدین خان کو الگ الگ شعبوں میں ان کی خدمات کیلئے اعزاز سے نوازاگیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔