اردو کی وجہ سے جن کا چراغ جلتا ہے، وہی اردو کا چراغ بجھانے میں مصروف: مشتاق نوری

’’اردو والے امیر ہونے لگتے ہیں تو وہ اردو کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی سوچ پیدا ہونے لگتی ہے کہ اردو پڑھ کر ان کے بچے معاشرے میں فٹ نہیں بیٹھیں گے جس کی وجہ سے اردو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہل اردو کی بھی تنگ نظری کو رکاوٹ قرار دیتے ہوئے سابق بیوروکریٹ، افسانہ نگار اور بہار اردو اکیڈمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری نے کہا کہ جن کے گھر کا چراغ اردو کی وجہ سے جل رہا ہے وہی لوگ اردو کا چراغ بجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بات ہاٹ کیک کے تحت منعقدہ ایک مذاکرے میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ اردو والے جیسے جیسے امیر ہونے لگتے ہیں وہ اردو کو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی سوچ پیدا ہونے لگتی ہے کہ اردو پڑھ کر ان کے بچے معاشرے میں فٹ نہیں بیٹھیں گے جس کی وجہ سے اردو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے فروغ کے بہت سارے معاملات میں اہل اردو ہی رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کس نے روکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم نہ دلائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی پر الزام عائد کرنے سے پہلے اپنے دامن میں جھانکنا چاہیے۔ انہوں نے سرکار پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے گھروں سے اردو کا چراغ جلانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اردو کے تئیں ہمارا جو رویہ ہے اس سے اردو ختم ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سارا تہذیبی اثاثہ عربی کے بعد اردو میں ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ غلطی ہم سے کہاں ہو رہی ہے۔ انہوں نے اردو کے تئیں اہل اردو اور خاص طور پرمسلمانوں کی بے حسی کا ذکر اپنے تجربات کی روشنی میں کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں اردو مترجم اور ٹائپسٹ کی بحالی بلاک کی سطح پر ہوئی تھی جس کا مقصد تھا کہ اردو والے اردو میں درخواست دیں گے جس کا ترجمہ کرکے معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا لیکن اردو والوں نے اردو میں درخواست نہیں دی، جس کی وجہ سے اردو کا فروغ بلاک کی سطح پر رک گیا اور جن لوگوں کی بحالی ہوئی تھی وہ دوسرا کام کر رہے ہیں۔ اردو میں کام نہ ہونے کی وجہ سے پھر اس کے بعد بحالی نہیں ہوئی۔

اردو کے سخت جاں اور طاقت ور ہونے کی وکالت کرتے ہوئے نوری نے کہا کہ اتنے برے حالات میں بھی اردو قائم ہے اور اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جب اردو اکیڈمی کے سکریٹری کا عہدہ سنبھالا تھا تو اس کا بجٹ محض 40 لاکھ روپے تھا لیکن اپنی میعاد کے دوران اس کا بجٹ ڈھائی کروڑ کروا دیا۔ انہوں نے اردو کے تئیں احساس کمتری سے نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو اپنائیں کیوں کہ اردو آپ کو سول سروس میں کامیاب بنانے میں بھی معاون ہے۔

انہوں نے کہا کہ اردو کے فروغ کے سلسلے میں اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جو زبان روزگار سے منسلک نہیں ہوگی وہ زندہ کیسے رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اردو میں روزگار کا نہ ہونا بھی اردو سے دوری کا ایک سبب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر طلبا کے درمیان سے یہ بات اٹھتی ہے جب ہمیں اردو سے روزگار نہیں ملتا ہے تو ہم اردو کیوں پڑھیں۔ نوری نے کہا کہ طلبا کی ذہن سازی کی ضرورت ہے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے بلکہ تہذیب و تمدن کا اس سے گہرا تعلق ہے اور وہ اچھا اور مہذب انسان بننے کے لئے ہی اردو پڑھیں۔

اس موقع پر مشہور نقاد اور صاحب طرز ادیب حقانی القاسمی نے مشتاق احمد نوری کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نوری صاحب نے جو اردو زبان و ادب کا معیار بلند کیا ہے اس کی گواہی سب لوگ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو فروغ دینے کے لئے صرف عہدہ کافی نہیں ہے بلکہ عزم کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور نوری صاحب نے اس کو ثابت کر دکھایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو وفاق کی زبان تھی اور ہے بدقسمتی سے کچھ لوگ اسے نفاق کی زبان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہاٹ کیک کے ایڈیٹرڈاکٹر زین شمسی نے کہا کہ اردو کی لڑائی کون لڑے گا، سرکاری عہدے پر بیٹھے لوگ لڑ نہیں سکتے، عہدہ جانے کا خطرہ ہوتا ہے، سرکاری ضابطے کی خلاف ورزی کا الزام عائد ہوگا لیکن یونیورسٹی کے اساتذہ اردو کے لئے لڑ سکتے ہیں کیوں کہ وہاں ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن کبھی کبھی یونیورسٹی کے اردو اساتذہ اردو کے لئے سڑکوں پر نہیں اترے۔ اس کے علاوہ کسی اردو والے نے کبھی نہیں سوچا کہ اردو یونٹ لگائیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو کا فروغ اور سیاست میں آپس میں گڈمڈ ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اردو کے تئیں حالات خراب ہو رہے ہیں، یو این این کے ایڈیٹر ڈاکٹر مظفر حسین غزالی نے کہا کہ اردو پورے آب و تاب کے ساتھ اردو قائم ہے مستقبل بھی اچھا ہے یہ اور بات ہے کہ اس نے اپنا گھر بدل لیا ہے۔ پہلے دہلی اور یوپی جو اردو کا گھر تھا وہ اب بنگال، مہاراشتر، بہار وغیرہ بن گیا ہے۔ راشٹریہ سہارا کے سینئر سب ایڈیٹر عبدالقادر شمس نے کہا کہ اردو کا مستقبل تابناک ہے اور اس کا ثبوت ملک گیر سطح پر نکلنے والے اردو کے اخبارات ہیں۔ اس کے علاوہ کالم نگار عابد انور، التجا عثمانی، اسلام خاں کے علاوہ دیگر لوگوں نے اظہار خیال کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Mar 2019, 5:09 PM