اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو بڑی تعداد میں سیاست میں حصہ لینا چاہیے: عدنان اشرف

آل انڈیا مشاعرہ کے کنوینر وشال چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جس طرح سے اردو زبان ختم ہوتی جا رہی ہے، وہ بے حد تکلیف دہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ 2 روپے کا اُردو اخبار بھی نہیں خریدتے۔

<div class="paragraphs"><p>مشاعرہ کے افتتاح کا منظر</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: کانگریس اقلیتی محکمہ کے میڈیا انچارج اور تلنگانہ انچارج سید عدنان اشرف نے حسن پور اسمبلی کے قصبہ ڈھکا میں ایک آل انڈیا مشاعرہ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر عدنان اشرف نے کہا کہ جو لوگ مشاعروں کا انعقاد کرتے ہیں، وہ لوگ سیکولر مزاج کے ہوتے ہیں اور سماج میں ہندو-مسلم اتحاد کے پیروکار ہوتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے ملک کی آزادی کے وقت آزادی کے متوالے کو اشعار اور نظموں کو نعروں کی شکل دے کر جوش بھرنے کا کام کرتے تھے، اسے کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ اُردو کے جوشیلے نغموں کے ذریعہ مجاہدین آزادی نے کئی بڑی لڑائیاں لڑیں۔

تقریب میں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے عدنان اشرف نے کہا کہ آج اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاسی میدان کی طرف بڑھیں، امت مسلمہ کو سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور اپنے بچوں کو سیاست میں بھیجنا چاہیے۔ اس سے وہ اپنی آواز بلند کر پائیں گے اور قوم و ملت کا سہارا بن سکیں گے۔ ملک سے نفرت کا ماحول ختم کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ کانگریس لیڈر نے لوگوں سے اپیل کی کہ بچوں کی تعلیم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ جو لوگ ’عبدل کے پنکچر‘ لگانے کی بات کرتے ہیں، وہ سچ ہوتی چلی جائے گی۔ تعلیم کے بغیر آپ ہر اعتبار سے اپنی زندگی میں پچھڑ جائیں گے۔ ہمیں ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد، شہید بہادر عبدالحمید، میزائل مین اے پی جے عبدالکلام اور ملک کی سرحد پر پڑوسی ملک پاکستان سے جنگ لڑنے والی کرنل صوفیہ قریشی کے کارناموں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ تعلیم کی بدولت ہی انھوں نے ملک کے لیے اپنا تعاون پیش کیا۔


اس مشاعرہ کے کنوینر مشہور صحافی وشال چودھری ایڈووکیٹ تھے، جنھوں نے اُردو زبان کے زوال پر اپنے شدید افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے مشاعرہ میں شریک لوگوں سے کہا کہ آج جس طرح اردو زبان ختم ہوتی جا رہی ہے، وہ بے حد تکلیف دہ ہے۔ انھوں نے اُردو کے تئیں اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُردو ہماری اپنی زبان ہے۔ جن گھروں میں پہلے اُردو ترقی پاتی رہی، ان کنبوں میں نہ اب اردو پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے بچوں کو اُردو پڑھاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ 2 روپے کا اُردو اخبار بھی نہیں خریدتے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔