عوامی فیڈ بیک نے مدھیہ پردیش حکومت کے اڑائے ہوش، کچھ اراکین اسمبلی کا ٹکٹ کاٹ سکتی ہے بی جے پی

مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے لیے اس بار حالات گزشتہ مرتبہ سے بھی زیادہ چیلنج بھرے نظر آ رہے ہیں، زمینی سطح سے جو فیڈ بیک سامنے آ رہے ہیں وہ پارٹی کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں دے رہے۔

<div class="paragraphs"><p>شیوراج سنگھ چوہان، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

شیوراج سنگھ چوہان، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

مدھیہ پردیش میں اسی سال اسمبلی انتخاب ہونے والے ہیں اور انتخاب سے پہلے بی جے پی کی پیشانی پر شکن صاف دکھائی دینے لگی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ زمینی فیڈ بیک اس کے حق میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی گجرات فارمولے کو ریاست میں سختی سے نافذ کرنے والی ہے۔ اس کے پیش نظر تین یا اس سے زیادہ بار کے اراکین اسمبلی کی امیدواری تو خطرے میں پڑ ہی سکتی ہے، ساتھ ہی کچھ سرکردہ لیڈران انتخاب نہ لڑنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔

ریاست میں 2018 میں ہوئے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو ڈیڑھ دہائی بعد اقتدار سے باہر ہونا پڑا تھا، لیکن اس بار حالات پارٹی کے لیے گزشتہ انتخاب سے بھی زیادہ چیلنج بھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ جو عوامی فیڈ بیک سامنے آ رہے ہیں، وہ پارٹی کے لیے ایک پیغام ہیں کہ بی جے پی کی حالت اچھی بالکل بھی نہیں ہے۔


موصولہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ دنوں دہلی میں ہوئی قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بھی ریاست میں پارٹی کے حالات پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس کے بعد ہی یہ سوچ سامنے آنے لگی ہے کہ گجرات کا فارمولہ مدھیہ پردیش میں بھی نافذ کیا جائے۔ پارٹی کے پاس اب تک جو زمینی حالات پر مبنی رپورٹ سامنے آئی ہے، اس کی بنیاد پر پارٹی کے کئی اراکین اسمبلی کی ٹکٹ کٹنے والے ہیں۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے تین ایشوز پر ریاست میں کئی بار زمینی فیڈ بیک منگایا۔ یہ ایشوز تھے کہ حکومت کو لے کر ووٹرس کا رخ کیا ہے، وزرا کے تئیں عوام کی رائے کیا ہے، اور علاقائی رکن اسمبلی سے ووٹرس کتنا مطمئن ہیں۔ ان تینوں ایشوز کو لے کر آئے فیڈ بیک نے پارٹی کو فکر میں ڈال دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کی سب سے زیادہ نظر تین بار سے زیادہ مرتبہ رکن اسمبلی بننے والے، 60 سال کی عمر پار کر چکے لیڈران، اور ان خاص لوگوں پر ہے جن کے سبب پارٹی کو نقصان کا اندیشہ ہے۔


پارٹی میں یہ بھی رائے بن رہی ہے کہ جن لیڈروں کی شبیہ اچھی نہیں ہے، یا عوام میں ناراضگی ہے، ان سے انتخاب سے تقریباً دو ماہ پہلے ہی یہ اعلان کرا دیا جائے کہ وہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔ ایسا کرنے پر اقتدار مخالف لہر کو کم کیا جا سکے گا۔ اس کے بعد تین بار کے اراکین اسمبلی اور دیگر امور پر فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ اس میں پارٹی کو بغاوت کا اندیشہ ہے، لیکن پارٹی جوکھم لینے کے لیے تیار ہے۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے، کیونکہ پارٹی کو اتنا بھروسہ ہے کہ جن کے ٹکٹ کٹیں گے ان میں سے بمشکل 5 فیصد ہی لیڈران ایسے ہوں گے جو پارٹی بدلنے کا جوکھم اٹھائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔