تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ’انسانی بم‘ بنانے کی سازش، انٹیلی جنس بری طرح ناکام

اصل چیلنج یہ ہے کہ پلوامہ حادثے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے روکا جائے، ماہرین کی رائے ہے کہ جموں و کشمیر سمیت ملک میں انتخابی موسم کے دوران تقسیم کاری کے منصوبوں کو ناکام بنایا جانا ضروری ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اوما کانت لکھیڑا

کشمیر میں ملی ٹینٹ تنظیموں کے ساتھ آئی ایس آئی اور پاکستان نواز علیحدگی پسند عناصر کی جگل بندی خواہ کوئی نئی بات نہ ہو لیکن ہندوستان مخالف عناصر کی طرف سے انجام دی گئی افغانستان اور سیریا کی طرز پر خود کش دھماکہ کی واردات نے سیکورٹی فورسز کو اپنی سلامتی حکمت عملی میں خاطر خواہ تبدیلی لانے پر مجبور ضرور کر دیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ذرائع اور ماہرین دفاع دونوں ہی کی جانب سے اس امر کا یکسر اعتراف کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں سلامتی ایجنسیوں کا مکمل نظام ناکارہ ثابت ہوا ہے۔ 40 سے زائد اہلکاروں کی جان جانے اور درجنوں جوانوں کے بری طرح زخمی ہو جانے کے بعد اب جا کر گورنر اور مرکزی حکومت کو یہ سمجھ آیا ہے کہ پاکستان کا کھلونا بنی جیش محمد جیسی خطرناک تنظیمیں کئی مہینے کی خاموش حکمت عملی کے بعد کس طرح کے بڑے خود کش حملے سے ہندوستانی نظام سلامتی کی قلعی کھول سکتی ہیں۔

ماہرین کی نظر میں مرکزی حکومت کی اہم ترین تشویش یہ ہے کہ افغانستان کی طرز پر ہندوستان میں انسانی بم بنانے کے لئے مقامی نوجوانوں کو تیار کرنے اور انہیں دہشت گردی کی طرف راغب کر کے ہندوستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بعد جو حالات پیدا ہوں گے ان کا کس طرح سامنا کیا جائے گا۔ اُڑی اور پٹھان کوٹ حملوں سے الگ ہٹ کر پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں اب اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر فدائین دستہ تیار کرنے کی فراق میں ہے۔

انتخابی موسم میں پاکستان کے ساتھ جنگ میں جانے کی سیاسی بیانبازی اور عوامی طور پر انتقام لینے کی مانگ سے حالات مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔ سابق فوجی سربراہ جنرل شنکر رائے چودھری اُن سابق فوجی سربراہوں میں شامل ہیں جن کا خیال ہے کہ اگر ہم موجودہ حالات میں جنگ کی پہل کرتے ہیں تو حکومت اور ملک کے تمام باشندگان کو یہ بات بخوبی سمجھ لینی چاہئے کہ جنگ محض عام ہتھیاروں تک ہی محدود نہیں رہنے والی اور اس کے ’جوہری جنگ‘ میں تبدیل ہونے میں ذرا دیر نہیں لگے گی۔

جو تشویش سب سے اہم ہے وہ یہ ہیے کہ ملک میں آئندہ دو ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں سیاسی تقسیم کاری کے لئے حزب اقتدار کی طرف سے مشتعل بیانبازیوں سے صاف ظاہر ہونے لگا ہے کہ پلوامہ کے واقعہ سے مودی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی مشترکہ مہم ماند پڑ گئی ہے۔ کیا پاکستان سے انتقام لینے کے لئے مودی حکومت پر مختلف شہروں سے جو دباؤ بنایا جا رہا ہے وہ واجب ہے! اس سوال پر ’کشمیر ٹائمز‘ کی ایڈیٹر انورادھا جاموال کہتی ہیں، ’’جیسا کہ جمعہ کو جموں و کشمیر کے کچھ شہروں میں لوگوں کے مظاہروں سے ماحول کو اشتعال انگیز بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے ہندوستان کا تو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، اس سے تو پورے مسلم طبقہ کو خوف زدہ کر کے اسے یک و تنہا کئے جانے کے رجحان کو ہی تقویت حاصل ہوگی۔‘‘

سابق فوجی سربراہ جنرل وید پرکاش ملک کا خیال ہے کہ فوج کو آنے والے دنوں میں یقینی طور پر بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا، کیونکہ آنے والے دنوں میں پاکستان حامی ملی ٹینٹ جموں و کشمیر میں کسی خطرناک واردات کو انجام دے سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح کی باتوں کا اس وقت تک کوئی مطلب نہیں ہوتا جب تک حملوں و ان کے طور طریقوں کے بارے میں سٹیک معلومات مہیا نہ کرائی جائے۔ دریں اثنا، سلامتی ایجنسیوں کے درمیان تال میل کا فقدان تو ظاہر ہوا ہی ہے، یہ چیلنج بھی کھڑا ہوا گیا ہے کہ واقعات کے دہراؤ کو روکنے کے لئے کیا تیاریاں ہوں اور کیسی تربیت دی جائے۔

سی آر پی ایف میں اعلیٰ سطح پر اس بات کو سنجیدگی سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کی اندرونی ساخت میں بھی وسیع تر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کئی حساس ریاستوں اور دہشت گردی و نکسل متاثرہ ریاستوں میں اسے اپنے خیموں اور رہائشی علاقوں کی تیاریوں کے تئیں پہلے سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرور ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔