پہلگام حملہ: جان کی بازی لگا کر سیاحوں کی زندگی بچانے والے رئیس احمد بھٹ کی کہانی خود ان کی زبانی

پولیس یا سیکورٹی فورسز کی موجودگی کے بارے میں پوچھے جانے پر بھٹ نے کہا کہ ’’وہ جائے وقوع پر 10 منٹ بعد پہنچے، کیونکہ وہاں تک گاڑیوں کے چلنے لائق راستے نہیں ہیں۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>اے این آئی سے بات کرتے ہوئے سیاحوں کو بچانے والے&nbsp;رئیس احمد بھٹ (ویڈیو گریب)</p></div>

اے این آئی سے بات کرتے ہوئے سیاحوں کو بچانے والےرئیس احمد بھٹ (ویڈیو گریب)

user

قومی آواز بیورو

22 اپریل کو سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملے میں جہاں 26 لوگوں کی جانیں گئیں، وہیں مقامی لوگوں کی مدد سے کئی سیاحوں کی زندگیاں بچائی بھی گئیں۔ سیاحوں کو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں سے بچانے والوں میں ایک نام ٹورسٹ پونی اسٹینڈ کے صدر رئیس احمد بھٹ کا بھی ہے۔ رئیس احمد نے 5 سیاحوں کی جان بچائی تھی، اس بہادری کے لیے انہیں ’پہلگام کا ہیرو‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بیسرن وادی میں حملے والی جگہ پر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر غیر محفوظ زخمی سیاحوں کی مدد کی۔ بھٹ سیاحوں کی مدد کے لیے اپنے دفتر سے یہ سوچ کر باہر نکلے کہ اگر حملہ آور اب بھی یہاں ہیں اور اگر ہم بھی مارے گئے تو کوئی بات نہیں۔

رئیس احمد بھٹ ’اے این آئی‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہاں ہونے والے حادثے کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے کل ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ ہم نہیں چاہتے کہ کشمیر میں ایسے واقعات ہوں، کیونکہ کشمیر 99 فیصد سیاحت پر منحصر ہے۔ جب سیاح یہاں آتے ہیں تو ہم اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ ہم نے ان لوگوں کو بچایا جو واقعے کے وقت ڈرے ہوئے تھے۔ گھوڑے والے جو راستے بھٹک گئے تھے ہم نے انہیں بھی بچایا، یہاں کی پوری آبادی بہت پریشان ہے۔‘‘


رئیس احمد بھٹ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’جب یہ واقعہ پیش آیا میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔ دوپہر کے قریب 2:35 بجے مجھے ہمارے یونین کے جنرل سیکریٹری کا پیغام موصول ہوا۔ جیسے ہی میں نے پیغام دیکھا، میں نے انہیں فون کیا لیکن نیٹ ورک کا ایشو تھا اس لیے آواز صاف طور پر سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس لیے میں اکیلا ہی چلا گیا۔ راستے میں مجھے 2 یا 3 لوگ ملے اور میں نے انہیں اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ کل ملا کر ہم 5 یا 6 لوگ ہو گئے۔‘‘

رئیس احمد کے مطابق جیسے ہی وہ جائے وقوعہ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ لوگ کیچڑ میں سنے ننگے پیر دور رہے تھے اور مدد کے لیے چلا رہے تھے۔ بھٹ نے کہا کہ ان کی توجہ صرف ان لوگوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے پر تھی۔ انہوں نے ڈرے اور تھکے ہوئے سیاحوں کو پانی پلا کر ان کی پیاس بجھانے میں مدد کی۔ رئیس احمد کے مطابق ہم نے جنگل سے آنے والی واٹر سپلائی کا ایک پائپ توڑا کر انہیں پانی دیا، دلاسا دیا اور ان سے کہا کہ ’اب آپ محفوظ علاقے میں ہیں فکر نہ کریں.‘


رئیس احمد بھٹ نے بات چیت کے دوران یہ بھی بتایا کہ انہوں نے سیاحوں کی مدد کرنے کے لیے تشدد سے متاثرہ مقام پر جانے کے لیے مزید علاقائی ٹٹو سواروں کو راضی کیا، حالانکہ وہ ڈرے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پھر ہم آگے بڑھتے رہے، کئی گھڑ سوار ڈر کی وجہ سے نیچے اتر رہے تھے۔ میں نے ان میں سے 10-5 کو اپنے ساتھ واپس آنے کے لیے راضی کیا۔‘‘ جائے وقوع پر پہنچتے ہی بھٹ ایک لاش دیکھ کر چونک گئے اور کہا کہ ان کی 35 سالہ زندگی میں پہلگام میں ایسا حادثہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پھر جب میں اندر گیا تو میں نے ہر جگہ لاشیں ہی لاشیں دیکھیں۔ صرف 3 یا 4 خواتین تھیں جو ہم سے چپکی ہوئی تھیں، اپنے شوہروں کو بچانے کی منتیں کر رہی تھیں۔ تب تک دوپہر کے تقریباً 3:20 بج چکے تھے۔

بھٹ نے آگے کہا کہ ’’تقریباً 10 منٹ بعد ایس ایچ او ریاض صاحب پہنچے، وہ ہم سے فون پر رابطے میں تھے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ بیسرن گھاس کے میدان عام طور پر بھرے رہتے ہیں، لیکن سلائیڈنگ اور سڑک بند ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی آمد و رفت کم تھی۔ پولیس یا سیکورٹی فورسز کی موجودگی کے بارے میں پوچھے جانے پر بھٹ نے کہا کہ ’’وہ جائے وقوع پر 10 منٹ بعد پہنچے۔ کیونکہ وہاں تک گاڑیوں کے چلنے کے لائق راستے نہیں ہیں۔ انہیں وہاں پیدل ہی بھاگنا پڑا۔ ہم مقامی لوگ جنگل سے گزرنے والے شارٹ کٹ سے واقف ہیں اس لیے ہم سب چھوٹے راستے سے جلدی پہنچ گئے۔ دوسروں کو شارٹ کٹ نہیں معلوم، اس لیے انہوں نے لمبا راستہ اختیار کیا اور 10 منٹ بعد وہاں پہنچے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔