اویسی کو نوٹا سے بھی کم ووٹ، اتر پردیش کی اقلیتوں نے فرقہ پرست سیاست کے خلاف ووٹ دیا

اتر پردیش اسمبلی الیکشن 2022 کے نتائج اب سب کے سامنے آ گئے اور بی جے پی نے ریاست میں لگاتار دوسری بار حکومت بنا لی ہے

اسدالدین اویسی، تصویر یو این آئی
اسدالدین اویسی، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

لکھنؤ: اتر پردیش اسمبلی الیکشن 2022 کے نتائج اب سب کے سامنے آ گئے اور بی جے پی نے ریاست میں لگاتار دوسری بار حکومت بنا لی ہے۔ نتائج میں حزب اختلاف پچھلے انتخابات کے مقابلہ ضرور مضبوط ہوا ہے لیکن آنے والے دنوں میں کیسا کردار رہتا ہے یہ دیکھنے کی بات ہے۔

ان انتخابات میں بی جے پی اتحاد نے جہاں 273 سیٹیں جیتیں وہیں ایس پی اتحاد کو پچھلے انتخابات کے مقابلہ ڈھائی گنا سیٹیں ملیں۔ اتحا د نے 403 میں سے 125 سیٹیں حاصل کیں۔ اگر ہم ان پارٹیوں پر نظر ڈالیں جن کا کھاتہ نہیں کھلا تو اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) ایسی پارٹی ہے جس کی بہار اسمبلی انتخابات 2020 میں شاندار کارکردگی رہی تھی لیکن اتر پردیش میں اس کو 0.49 فیصد ووٹ ہی ملے ہیں۔ ایس پی کی سیٹوں میں ڈھائی گنا اضافہ اور اویسی کی پارٹی کو محض 0.49 فیصد ووٹ ملنے کا مطلب صاف ہے کہ اتر پردیش کے مسلمانوں نے فرقہ وارانہ سیاست کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اتر پردیش کے نتائج اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اتر پردیش کی اقلیتوں نے اگر اکثریتی فرقہ کی سیاست کرنے والی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے تو پھر اس نے اقلیتوں کی سیاست کرنے والے اویسی کو بھی ووٹ نہیں دیا ہے۔


یوپی میں اے آئی ایم آئی ایم نے 100 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ اپنی پارٹی کے لیے اسد الدین اویسی نے یکے بعد دیگرے کئی ریلیاں کیں۔ اس دوران ان پر حملہ بھی ہوا جس نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی لیکن اس کے باوجود اس سب کا اتر پردیش کے عوام بالخصوص اقلیتوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اویسی کی پارٹی کو یوپی میں صرف 0.49 فیصد ووٹ ملے۔ یہ ووٹ NOTA (مندرجہ بالا میں سے کوئی نہیں) سے کم ہیں کیونکہ یوپی میں 0.69 فیصد لوگوں نے نوٹا کا انتخاب کیا ہے۔

اویسی نے 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں پہلی بار 20 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ یہاں سیمانچل میں اویسی کی پارٹی کے امیدواروں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 5 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بہار میں اس کامیابی کی وجہ سے اویسی کا حوصلہ بھی بڑھ گیا تھا اور بی جے پی کو بھی لگا کہ اویسی کے ذریعہ اگر اقلیتوں کا ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو وہ اس کے حق میں جائے گا لیکن اتر پردیش میں ایسا نہیں ہوا۔

یوپی انتخابات میں اویسی نے بہار سے اپنے ایم ایل اے کو بطور مبصر میدان میں اتارا تھا۔ بہار سے یوپی جانے والے اے آئی ایم آئی ایم کے ارکان اسمبلی نے بھی زور شور سے مہم چلائی اور خود اویسی نے زبردست ریلیاں کیں لیکن انہیں مایوسی ہوئی۔


ان نتائج پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اویسی نے کہا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ سماج وادی پارٹی بی جے پی کو ہرا نہیں سکتی اور یہ ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب یوپی کے غریب لوگ سمجھ جائیں گے۔ ہم پر جو بھی الزام لگایا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم راجستھان اور گجرات میں بھی لڑیں گے۔ ہم انتخابی نتائج کا احترام کرتے ہیں۔ ہم پہلے سے زیادہ محنت کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔