’نربھیا‘ جیسے وحشت ناک معاملوں سے غمزدہ ملک کے سب سے بڑے ’جلّاد‘ نے کیا بڑا مطالبہ

جلاد پون کا کہنا ہے کہ ’’میں بالکل تیار بیٹھا ہوں کہ نربھیا جیسے واقعات کے قصورواروں کا ’ڈیتھ وارنٹ‘ ملے اور میں فوراً تہاڑ جیل پہنچوں۔ قصورواروں کو پھانسی پر چڑھانے کے لیے مجھے صرف 2 سے 3 دن چاہیے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ملک کے سب سے بڑے جلّاد پون نے نربھیا کے قصورواروں کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ جلاد نے کہا کہ ’’نربھیا اور حیدر آباد جیسے روح خراش واقعات گھر بیٹھے نہیں رک سکتے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ جتنی جلد ہو سکے نربھیا کے قصورواروں کو پھانسی پر لٹکا دو۔ ویٹنری ڈاکٹر کے قاتلوں کو جلد سے جلد مجرم قرار دلوا دیجیے۔ ہندوستان میں نربھیا اور حیدر آباد جیسے واقعات خود بہ خود بند ہو جائیں گے۔ جب تک ایسے ظالموں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا جائے گا، تب تک باقی بچے ہوئے ایسے ظالم انسانوں میں آخر خوف کس طرح پیدا ہوگا؟‘‘

میرٹھ میں موجود پشتینی جلاد پون نے نربھیا جیسے واقعات کے لگاتار بڑھنے پر کھل کر بات چیت کی۔ پون نے کہا کہ ’’اگر نربھیا کے قاتلوں کو حکومت لٹکا چکی ہوتی تو شاید حیدر آباد کی معصوم اور بے قصور ڈاکٹر بے موت مرنے سے بچ گئی ہوتی۔ نربھیا کے قاتلوں کی آخر تہاڑ جیل میں پرورش کیوں ہو رہی ہے؟ نربھیا واقعہ کے مجرم ہوں یا پھر ویٹنری ڈاکٹر کے قاتل، ان کا علاج جب تک آناً فاناً میں نہیں ہوگا، تب تک یہ مصیبتیں سماج میں برقرار رہیں گی۔‘‘ پون نے مزید کہا کہ ’’میں تو بالکل تیار بیٹھا ہوں۔ نربھیا کے مجرموں کے ڈیتھ وارنٹ ملے اور میں تہاڑ جیل پہنچوں۔ مجھے مجرموں کو پھانسی کے پھندے پر ٹانگنے کے لیے محض دو سے تین دن کا وقت چاہیے۔ صرف ٹرائل کروں گا اور عدالت کے ڈیتھ وارنٹ کو عمل میں لا دوں گا۔‘‘


پون نے بات چیت کے دوران جلاد سے متعلق اپنے پیشہ کے بارے میں بھی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں خاندانی جلاد ہوں۔ اس میں مجھے شرم محسوس نہیں ہوتی۔ میرے پردادا لکشمن جلاد، دادا کالو رام جلاد، والد ممو جلاد تھے۔ مطلب جلّادی کے اس خاندانی پیشے میں اب میں چوتھی نسل کا واحد جلاد ہوں۔‘‘ پون نے پہلی پھانسی دادا کالو رام جلاد کے ساتھ پٹیالہ سنٹرل جیل میں دو بھائیوں کو دی تھی۔ دادا کے ساتھ اب تک زندگی میں پانچ خونخوار مجرموں کو پھانسی پر ٹانگنے والے پون کے مطابق ’’پہلی پھانسی دادا کالو رام کے ساتھ پٹیالہ سنٹرل جیل میں دو بھائیوں کو لگائی تھی۔ اس وقت میری عمر تقریباً 20 یا 22 سال رہی ہوگی۔ اب میں 58 سال کا ہو چکا ہوں۔‘‘

پون کے دعوے کے مطابق اب تک اپنے دادا کالو رام کے ساتھ آخری پھانسی اس نے بلند شہر کے عصمت دری اور قتل کے مجرم کو سنہ 1988 کے آس پاس لگائی تھی۔ وہ پھانسی آگرہ سنٹرل جیل میں لگائی تھی۔ اس سے پہلے جے پور اور الٰہ آباد کی نینی جیل میں بھی دو لوگوں کو دادا کے ساتھ پھانسی پر لٹکوانے گیا تھا۔ پون نے آئی اے این ایس کے ساتھ بات چیت میں صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ایسے مجرموں کی پرورش کرنا یعنی نئے مجرموں کو جنم لینے کے لیے کھلا موقع دینا ہوتا ہے۔‘‘


اپنی زندگی اور گزر بسر کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے پون نے کہا کہ فی الحال ان کی زندگی اتر پردیش حکومت سے ملنے والے 5 ہزار روپے ماہانہ سے جیسے تیسے چل رہی ہے۔ یہ روپے میرٹھ جیل سے ہر مہینے مل جاتے ہیں۔ بقول پون ’’پہلے تو سستے کے زمانے میں پھانسی لگانے کے اونے پونے دام دادا کالو رام کو ملا کرتے تھے۔ آج کل ایک پھانسی لگانے کی قیمت 25 ہزار روپیہ ہے۔ حالانکہ ان 25 ہزار سے زندگی نہیں کٹنی۔ پھر بھی خوشی اس بات کی زیادہ ہوتی ہے کہ چلو کسی سماج کے ناسور کو جڑ سے ختم تو اپنے ہاتھوں سے کیا۔‘‘

دہلی جیل کے ڈائریکٹر جنرل سندیپ گویل کا کہنا ہے کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ پھانسی پر لٹکانے کے لیے کوئی خاص طور پر رجسٹرڈ ہوتا ہو۔ یہ جیل انتظامیہ اور ریاستی حکومت پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ وہ جسے بھی اس کام کے لیے قانونی طور سے بہتر سمجھے، اس سے یہ کام (پھانسی پر مجرم کو لٹکوانا) کروا لے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کام میں (مجرم کو پھانسی دینے کے وقت) سمجھداری اور احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔‘‘


ایشیا کی سب سے محفوظ سمجھی جانے والی تہاڑ جیل کے سابق جیلر اور بعد میں قانونی مشیر کے عہدہ سے سنہ 2016 میں سبکدوش ہو چکے سنیل گپتا سے بھی منگل کی دیر شب خبر رساں ادارہ آئی اے این ایس نے بات کی۔ انھوں نے حال ہی میں جیل کی زندگی پر’بلیک وارنٹ‘ نام کی سنسنی خیز کتاب بھی لکھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’میری 35 سال کی ملازمت میں میرے سامنے آٹھ لوگوں کو تہاڑ جیل میں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تھا۔ ان میں رنگا-بِلّہ، اندرا گاندھی کے قاتل ستونت-کیہر سنگھ، کشمیری دہشت گرد مقبول بٹ، ودیا جین کے قاتل دو بھائی جگتار-کرتار سنگھ، پارلیمنٹ پر حملہ کے ملزم افضل گرو شامل تھے۔ کسی کو بھی پھانسی پر لٹکانے میں کوئی دقت نہیں آئی۔ ہاں، اس کام کے لیے ماہر تو ہونا ہی چاہیے۔ کیونکہ اس میں عدالت کے بے حد حساس حکم کی تعمیل کی جانی ہوتی ہے۔ اس حکم کی تعمیل ہونے میں چوک بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ حالانکہ ابھی تک ایسی چوک کبھی کسی کو پھانسی پر لٹکائے جانے کے وقت سننے اور دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */