مظفرنگر میں ’ہری چنری مہیلا کسان پنچایت‘ کا انعقاد، کسانوں کے حق میں سڑک پر لڑیں گی خاتون کسان

سنیتا بالیان ٹکیت نے کہا ’’تمام چھوٹے کسان خاندان بغیر ملازم کے خاندان کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں جس میں خواتین کسان کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے۔ آج کسانوں کے خلاف حکومت کا رویہ منفی ہوتا جا رہا ہے‘‘

بڑھانہ میں مہیلا کسان پنچایت کا منظر / تصویر آس محمد کیف
بڑھانہ میں مہیلا کسان پنچایت کا منظر / تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مظفرنگر: مغربی اتر پردیش مظفر نگر کے بُڑھانہ اسمبلی سیٹ کے گوئلا گاؤں میں آج ایک حیرت انگیز اور انوکھا نظارہ دیکھنے کو ملا، دوپہر 2 بجے سے سیکڑوں خواتین یہاں جمع ہونے لگیں۔ یہاں گاؤں کے ایک میدان میں سٹیج سجا ہوا تھا۔ ان تمام خواتین نے اپنے عام لباس شلوار قمیض اور ساڑی کے ساتھ سبز دپٹہ (ہری چنری) بھی پہن رکھی تھی۔ یہ ایک نئی چیز تھی اور تجسس پیدا کر رہی تھی۔ 50 سالہ شیلا دیوی، جو کافی متحرک نظر آرہی تھیں اور تیاریوں میں مصروف تھیں، نے بتایا کہ آج ان کے گاؤں کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ ان کا گاؤں خواتین کسانوں کی پہلی پنچایت کے انعقاد کا گواہ بن گیا ہے۔ کھیتی باڑی کا کام یہ خواتین اپنے کسان شوہروں کے ساتھ مل کر کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کھاپ چودھری کی بیوی اور کسان لیڈروں کے خاندان کی خواتین کو بھی اس پنچایت میں بلایا گیا ہے۔ پنچایت میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز کسان لیڈر راکیش ٹکیت کی بیوی سنیتا بالیان تھیں۔

جب 3 بجے پورا میدان بھر گیا تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کچھ مرد آئے اور خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر عورتوں کی باتیں سن رہے تھے، ان میں راکیش ٹکیت بھی شامل تھے۔ مہیلا پنچایت کی صدارت شانتی دیوی اور ببلی تیاگی نے کی۔ خواتین کسان مقررین نے یہاں اس بات پر زور دیا کہ اگر وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھیتی باڑی کریں گی تو وہ کھیتی کے مسائل میں ایک ساتھ کھڑی رہیں گی۔ اس پنچایت میں ایک بزرگ خاتون کسان بھی تھیں۔ جس میں بالیاں کھاپ چودھری نریش ٹکیت کی بہن اوم بیری دیوی بھی شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل خواتین ہر محاذ پر مردوں کے ساتھ کھڑی ہیں اور ہم دبنے والے نہیں ہیں۔


مظفرنگر میں ’ہری چنری مہیلا کسان پنچایت‘ کا انعقاد، کسانوں کے حق میں سڑک پر لڑیں گی خاتون کسان

پنچایت میں مہمان خصوصی کے طور پر پہنچیں سنیتا بالیان ٹکیت نے کہا کہ آج خواتین کے اتحاد نے ناانصافی کے خلاف اجتماعی احتجاج کی بنیاد رکھی ہے۔ گاؤں اور جنگل کو جاننے والے تمام سماجی لوگ جانتے ہیں کہ کھیتی باڑی کا کوئی بھی کام صرف مرد کسانوں کا کام نہیں ہے، تمام کسان خاندانوں کی خواتین زمین سے اپنی ماں کی طرح پیار کرتی ہیں، وہ ہمیشہ کاشتکاری میں مرد کسانوں کی مدد کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سی خواتین کسان ٹریکٹر چلانا بھی جانتی ہیں۔ خاص طور پر تمام چھوٹے کسان خاندان بغیر ملازم کے خاندان کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں جس میں خواتین کسان کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے۔ آج کسانوں کے خلاف حکومت کا رویہ منفی ہوتا جا رہا ہے۔ خاندان کے مرد کسانوں کو اس کے لیے جدوجہد کرتے دیکھ کر اب ہم نے بھی گودام سے کھیت تک ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم خواتین، ہری چنری کی اپنی شناخت کے ساتھ اب تمام تمام مسائل پر اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ کسانوں کے مفاد کے لیے لڑیں گی۔

اس پنچایت میں خواتین کی ایک بڑی ناراضگی حکومت کی طرف سے غیر ملکی دودھ کی سپلائی تھی۔ یہاں مقررین نے کہا کہ اگر حکومت غیر ملکی دودھ کی سپلائی کرتی ہے تو اس سے ملک کے دودھ پیدا کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔ اگر وہ دودھ کی قیمت میں من مانی کرتے ہیں تو اس سے خواتین کاشتکار براہ راست متاثر ہوں گی۔ مہیلا کسان پنچایت میں ہاپوڑ کی نیلم دیوی نے کہا کہ اگر مردوں اور ہمارے مفادات ایک ہیں تو ہماری لڑائی بھی ایک ہونی چاہیے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مردوں کے کسی بھی کسان مفاد کی جدوجہد میں لڑیں گی۔ شاملی ضلع کی فرمانہ نے کہا کہ کسان-کسان سب برابر ہیں اور ہم سب مل کر لڑیں گے۔ اس پنچایت میں ایک طرف بیٹھے کسان لیڈر راکیش ٹکیت کو بھی اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ راکیش ٹکیت نے ملک بھر کی خواتین کی تنظیموں مثلاً گلابی گینگ اور پنجاب کی پیلی چنری پہننے والی خواتین کی ہمت کی تعریف ہوئے کہا کہ ترقی کے اس دور میں خواتین کو اپنے خلاف ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا چاہئے۔ اپنے گاؤں میں راشن کی دکان پر گھپلہ بازی کرنے والی ڈیلر سے سے لے کر اعلیٰ سطح تک خواتین کو بھی قیادت اور جدوجہد کی اپنی صلاحیت کو نکھارنا بہت ضروری ہے۔


گوئلا گاؤں میں اس پنچایت کو لے کر کافی چرچا رہی۔ ایک طرف کھڑے پنچایت کو سن رہے گاؤں کے کسان ستپال سنگھ نے کہا کہ اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ کسانوں کے بچے انگریزی بول کر زور و شور سے اپنی آواز اٹھائیں گے اور خواتین مردوں کا ساتھ دینے سڑکوں پر نکل آئیں گی، اب ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔ کوئی بھی حکومت کسانوں کو ناجائز طریقے سے دبا نہیں سکتی۔ یہاں پنچایت میں ان خواتین کا اجتماع تھا جن کے خاندان کے افراد، شوہر یا بھائی دہلی کی کسان تحریک میں شامل رہے ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ دہلی کسان تحریک کے دوران انہوں نے اپنے شوہر کو بچوں کی طرف سے بے فکر رہنے کو کہا اور پورے خاندان کی ذمہ داری سنبھال لی۔

راکیش ٹکیت کی اہلیہ سنیتا بالیان نے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ساس بلزوری دیوی اپنے سسر مرحوم بابا مہندر سنگھ ٹکیت کے ساتھ کسانوں کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے جیل گئی تھیں، وہ بھی ان میں شامل تھیں۔ وہ بوٹ کلب کے دھرنے میں بھی شامل تھیں۔ تمام تحریکوں میں اپنے خاندان کی سرگرمی کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر مضبوط ہیں اور اس بار کسانوں کے مفادات کے لیے ہرنی چنری پہنے خواتین کسانوں کا سیلاب آئے گا۔ اب ہم بھی مردوں کے ساتھ مل کر لڑیں گی، کیسے لڑیں گی اس کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ خواتین ہی حقیقی کسان ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔