میڈیا اور تعلیمی اداروں پر منظم حملہ، جمہوریت کے لئے خطرناک: سدھارتھ وردراجن

اے ایم یو میں 3 روزہ ادبی فیسٹیول-2019 سے خطاب کرتے ہوئے سدھارتھ وردراجن نے کہا کہ آج صحافت خطرہ میں ہے کیونکہ متعدد جمہوری اداروں پر منظم طریقہ سے حملے ہورہے ہیں۔

تصویر شوشل میڈیا
تصویر شوشل میڈیا
user

یو این آئی

علی گڑھ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو)میں تین روزہ ادبی فیسٹیول۔ 2019میں خطاب کرتے ہوئے دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے کہاکہ آج ہمیں صحافت خطرہ میں دکھائی دیتی ہے کیونکہ متعدد جمہوری اداروں پر منظم طریقہ سے حملے ہورہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ملک میں جمہوریت کے مستقبل پر سوال کھڑا ہوگیا ہے کیونکہ اظہار رائے کی آزادی پر حملہ ہورہا ہے اور میڈیا اس کا صرف ایک عکس ہے۔ ورد راجن کے خطاب کا موضوع تھا: ’میڈیا اور یونیورسٹی کا تصور: حصار میں‘ ۔

تین روزہ ادبی فیسٹیول طلبہ کے ذریعہ منعقد کیا گیا ہے ، جسے کارپوریٹ اسپانسرشپ سے دور رکھا گیا ہے۔ فیسٹیول میں ملک بھر کی بڑی ادبی شخصیات، نامور مصنفین، شعراء، کالم نویس اور مختلف زبانوں کے صحافی شرکت کررہے ہیں۔ ورد راجن نے کہاکہ جو صحافی اور میڈیا گھرانے متبادل نقطۂ نظر اور رائے پیش کرتے ہیں انھیں ٹرولس کے ذریعہ منظم طریقہ سے اور مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور کچھ بڑے میڈیا گھرانے بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں۔

کچھ مخصوص ٹی وی چینلوں کے ذریعہ مسلسل گمراہ کن پروپیگنڈہ چلانے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے آئی ٹی سیل بھی حالیہ برسوں میں صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

کچھ کارپوریٹ گھرانوں کے ذریعہ میڈیا ہاؤس اور صحافیوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے وردراجن نے کہاکہ جب اس طرح کے مقدمے بڑھنے لگتے ہیں تو میڈیا گھرانوں کے مالکان ایسی رپورٹوں اور کالموں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جس سے مشکل پیدا ہو۔ انھوں نے کہاکہ اس کی وجہ سے میڈیا گھرانوں نے متعدد اہم امور اور موضوعات پر رپورٹنگ ترک کردی ہے۔

سوشل میڈیا کے روشن پہلو کا ذکر کرتے ہوئے سدھارتھ وردراجن نے کہا’’وائر مالی اعتبار سے گرچہ کہ بہت چھوٹا پلیٹ فارم ہے تاہم ہماری کئی اسٹوریز وائرل ہوئی ہیں‘‘۔ سوشل میڈیا میں رائے عامہ کو متاثر کئے جانے کا بھی انھوں نے حوالہ دیتے ہوئے اسے جمہوریت اور آزادی کے لئے خطرہ قرار دیا۔

وردراجن نے کہاکہ یہ حملے صرف میڈیا تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہماری یونیورسٹیاں بھی لگاتار نشانہ پر ہیں۔ انھوں نے کہاکہ اس سے زیادہ خطرناک کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ تعلیمی ادارے نئی نسل کی تربیت کرتے ہیں اور ملک کا مستقبل تیار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مثبت اقدار و روایات کی تربیت اور تخلیقی و تنقیدی فکر کا ارتقاء اظہار رائے کی آزادی کے ماحول میں ہی ہوتا ہے، دوسری طرف ایک طبقہ ایسا ہے جو جدیدیت ،روشن خیالی اور سائنسی فکرکے خلاف ہے اور وہ ہماری یونیورسٹیوں کے ذریعہ قومی ترقی کے لئے انجام دی جانے والی خدمات و کردار کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

سدھارتھ ورد راجن نے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ آزاد میڈیا کی ہر حالت میں حمایت کریں اور اسے فروغ دینے میں مددگار بنیں۔ انھوں نے طلبہ سے مکالمہ بھی کیا اور ان کے سوالوں کے جواب دئے۔ اس موقع پر ڈائس پر پروفیسر سید سراج اجملی، پروفیسر ایف ایس شیرانی اور ڈاکٹر محب الحق بھی موجود تھے۔ یونیورسٹی ڈبیٹنگ و لٹریری کلب کے سکریٹری انصب عامر خاں نے پروگرام کی نظامت کی۔

اس موقع پر ’ادبی فیسٹیول کی معنویت‘ کے موضوع پر ایک پینل مباحثہ ہوا جس میں جئے شری مشرا، جیری پِنٹو اور پروفیسر شافع قدوائی شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ پروفیسر سید اصغر وجاہت نے کہانی سنائی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Mar 2019, 10:09 AM