ممبئی میں ’ووٹ چوری‘ کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا زوردار مظاہرہ
’’ووٹر لسٹوں میں بے ضابگی اور ووٹ چوری جیسے عوامل ملک کے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔‘‘ علماء اکرام اور دانشوروں کا اظہارِ خیال۔

ممبئی: ملک میں ’ووٹ چوری‘ اور انتخابی دھاندلی کے الزامات نے زور پکڑ لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بھی گہرے سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ گزشتہ روز ممبئی میں مہاوکاس اگھاڑی سمیت ریاست مہاراشٹر کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ووٹ چوری کے خلاف بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ احتجاج میں کانگریس، این سی پی (شردپوار)، شیوسینا (ادھو ٹھاکرے گروپ) اور ایم این ایس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے صاف و شفاف انتخابات کرانے کا پُرزور مطالبہ کیا۔
اجلاس میں یہ اتفاق رائے پایا گیا کہ جب تک ووٹر لسٹ سے جعلی اور مشتبہ نام حذف نہیں کئے جاتے، تب تک انتخابات نہ کرائے جائیں۔ اپوزیشن نے ساتھ ہی ای وی ایم مشینوں کے بجائے بیلیٹ پیپر پر ووٹنگ کرانے کا بھی مطالبہ کیا۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ دانشور طبقہ بھی اس مؤقف کی تائید کر رہا ہے کہ ووٹر لسٹوں میں گڑبڑ اور ووٹ چوری جیسے عوامل ملک کے جمہوری نظام کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔ ووٹر لسٹ کی درستی کے بغیر انتخابی عمل کی شروعات نہیں ہونی چاہئے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ الیکشن کمیشن کو 31 جنوری 2026 سے قبل ممبئی اعظمیٰ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کروانے کی ہدایت دی ہے۔
عرفان علی انجینئر (ڈائریکٹر، سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم) کا کہنا ہے کہ انتخابات میں شفافیت لازمی ہے۔ الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کے مطالبات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مہاراشٹر دیویندر فڑنویس بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ووٹر لسٹ میں خامیاں موجود ہیں، مگر اس کے باوجود الیکشن کمیشن پرانے الیکٹورل رول پر ہی الیکشن کرانے پر بضد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 15 اکتوبر تک کے اندراج شدہ نام برقرار رہیں گے، لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جعلی اور فرضی ناموں کے اخراج کے ساتھ ساتھ نئے ووٹروں کے اندراج کی سہولت 15 اکتوبر کے بعد بھی جاری رہنی چاہیے۔ عرفان علی انجینئرکا کہنا ہے کہ ایک دو حلقوں کی بات ہوتی تو سمجھا جا سکتا تھا، یہاں تو ریاست کے ہر انتخابی حلقے سے جعلی ووٹرس کی شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ معاملہ بڑا سنجیدہ ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور آل انڈیا علماء کونسل کے سکریٹری مولانا محمود دریابادی نے کہا کہ ووٹ چوری صرف مہاراشٹر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اگر بروقت اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے احتجاج کو عوامی تحریک کی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
مائناریٹی ایجوکیشن فیڈریشن جلگاؤں کے صدر عبدالکریم سالار نے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محض 5 ماہ کے اندر عوامی رجحان کا مکمل طور پر الٹ جانا شکوک کو جنم دیتا ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں ریاست مہاراشٹر میں کانگریس کو 16.92 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 13 نشستوں پر کامیابی ملی، لیکن محض ساڑھے پانچ ماہ بعد ہونے والے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں پارٹی کا ووٹ شیئر محض 12.42 فیصد پر سمٹ گیا اور پارٹی کو صرف 16 اسمبلی نشستوں تک ہی محدود ہونا پڑا۔ مہاراشٹر کے پارلیمانی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے والی کانگریس پارٹی کا محض 6 ماہ بعد بری طرح ہار جانا شک و شبہات کو جنم دیتا ہے، جبکہ عوامی ناراضگی بی جے پی کے خلاف عروج پر تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ای وی ایم سسٹم اور ووٹر لسٹوں میں گڑبڑیوں نے پورے انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مغربی ممالک نے ای وی ایم کو مسترد کر دیا ہے، مگر ہندوستان میں الیکشن کمیشن اسے ناگزیر سمجھتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انتخابات بیلیٹ پیپر پر ہوں اور ووٹر کی رازداری محفوظ رکھی جائے۔ بوتھ وائز کس امیدوار کو کتنے ووٹ ملے۔ اس معلومات کو صیغۂ راز میں رکھنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
جمعیت العلماء مہاراشٹر کے صدر مولانا حلیم اللہ صدیقی نے بھی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ دھاندلی سے اقتدار حاصل کرتے ہیں، وہ جمہوریت کو قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بیدار ہوں اور ووٹر لسٹوں پر نظر رکھیں تاکہ کوئی جعلی یا باہر کا ووٹر فہرست میں شامل نہ ہو۔ مولانا حلیم الله نے کہا کہ اپوزیشن کا مطالبہ برحق ہے اور الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی شفافیت کو عملی طور پر نافذ کرے۔
عوامی رجحان یہی پایا جارہا ہے کہ انتخابی نظام پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ووٹر لسٹوں کی درستگی، ای وی ایم کے شفاف استعمال اور عوامی اعتماد کی بحالی کے بغیر انتخابی نظام پر یقین کمزور ہوتا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کو محض ضابطہ جاتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔