جےاین یو،حیدرآباد کےبعد الٰہ آباد یونیورسٹی نشانے پر

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

تعلیم کے اعلیٰ ادارے آر ایس ایس کا اڈہ بنتے جا رہے ہیں۔ محض دہلی کی مشہور و معروف جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہی وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے نشانے پر نہیں ہیں بلکہ ملک کی تمام اہم یونیورسٹیوں پر اس وزارت کی نگاہیں ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کہیں سنگھ کی فکر کے علاوہ کوئی اور خیال نہ پنپنے پائے تاکہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا کے ذہن آزادانہ فکر سے عاری رہیں۔

وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی اس سازش کا تازہ ترین شکار الٰہ آباد یونیورسٹی ہوئی ہے۔ وہاں کیا ہونے والا تھا اور اس کو روکنے کے لیے کس طرح وزارت نے وائس چانسلر پر دباؤ ڈال کر ایک پروگرام کیسے منسوخ کر وایا، یہ ایک انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔ پیش خدمت ہے اس پروگرام کے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ایک رکن منیش شرما کا کھلا خط الٰہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے نام جو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی یونیورسٹیوں میں دخل اندازی کا کھلا ثبوت ہے۔

الٰہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے نام کھلا خط

محترم!

یونیورسٹی احاطہ میں ’لبرٹی فیسٹیول‘ منعقد کرنے کی اجازت دینے اور اس کے بعد اس اجازت کو منسوخ کرنے سے متعلق ہماری فون پر ہوئی گفتگو کو یاد کرنے کی کوشش کریں۔ فیسٹیول منعقد کرنے کی اجازت دینے کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، ساتھ ہی اس خط کے ذریعہ اپنی فکرمندی سے آپ کو مطلع کرانا چاہتا ہوں کہ کس طرح آخری لمحات میں اس اجازت کو منسوخ کر دیا گیا۔

میں آپ کی اجازت کے بغیر اس خط کو برسرعام کر رہا ہوں، کیونکہ اس خط میں جو لکھا ہے اس سے صرف ہم دونوں کا ہی نہیں بلکہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے طلبا، الٰہ آباد اور ملک کے نوجوانوں کا بھی تعلق ہے۔ ان طلبا اور نوجوانوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ آپ جیسے یونیورسٹی کے سربراہ آخر کس طرح کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ میرے اس قدم کی تعریف کریں گے کیونکہ اس کا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا قطعی نہیں ہے۔

میرے کچھ دوست طلبا نے الٰہ آباد یونیورسٹی کے طلبا کے ساتھ ملک کی آئین سے متعلق ’جشن‘ منانے کے لیے ’لبرٹی فیسٹیول‘ نام سے یک روزہ تقریب منعقد کرنے کی آپ سے اجازت طلب کی تھی۔ آپ نے وسیع قلبی کے ساتھ نہ صرف اس تقریب کی اجازت دی تھی بلکہ جشن میں بطور مہمانِ خصوصی شامل ہونے پر رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔ 13 ستمبر 2017 کو ہمیں متعلقہ شعبہ کی طرف سے آپ کےفیصلے کے سلسلے میں ایک خط بھی موصول ہوا تھا۔

ہمارے لیے اس اجازت نامہ کا ملنا ہی بہت بڑی حصولیابی تھی کیونکہ کئی یونیورسٹیوں میں ہماری یہ کوشش ناکام رہی تھی۔ تین سال قبل اس طرح کے انعقاد میں کوئی رخنہ پیش نہیں آتا تھا، لیکن اب ایسے انعقاد کے لیے اجازت ملنا غیر معمولی بات ہو گئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہمیں آپ نے اجازت دی تو ہم نے خود کو احسان مند محسوس کیا اور اس بات پر ہمیں فخر بھی ہوا کہ الٰہ آباد یونیورسٹی آپ جیسے لوگوں کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ لیکن جیسے جیسے تقریب کی تاریخ نزدیک آنے لگی ہمیں اس طرح کی خبریں بھی ملنے لگیں کہ جے این یو، آئی آئی ٹی مدراس، جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ اداروں میں اس طرح کے انعقاد کے لیے دی گئی اجازت منسوخ کی جا رہی ہے۔ ہمیں ان خبروں سے فکر ہونے لگی، لیکن چونکہ آپ نے ہمیں اجازت دے دی تھی اس لیے ہم اپنی تیاریوں میں مصروف رہے۔

یہ ایک الگ طرح کی تقریب تھی۔ اس تقریب میں ہم آئین سے متعلق تبادلہ خیال کرنے والے تھے اور اس پر جشن منانے والے تھے، جس کی آزادی ہمیں آئین میں بھی دی گئی ہے۔ یہ وہ دستاویز ہے جسے ہندوستان کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے بعد انگریزی حکومت سے خود کو آزاد کرانے کے بعد اپنے لیے تیار کیا تھا۔ متعدد لوگوں کے ذریعہ جان کی بازی لگانے کے بعد ملی آزادی ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہے اور اسی آزادی کو ہمارا آئین متعارف اور مشتہر کرتا ہے۔ اسی لیے ہمارا ماننا ہے کہ ہم صرف 15 اگست اور 26 جنوری کو ہی آزادی کا جشن نہ منائیں بلکہ آئین کے بنیادی اصولوں کو اپنی معمولاتِ زندگی میں بھی اتاریں اور اس کو یاد کریں۔

بہر حال، ہم تقریب کی تیاری کرتے رہے۔ اس یک روزہ تقریب میں دوسرے شہروں سے مصنّفین، مہمانام اور اداکاروں کو شامل ہونا تھا اور دن بھر ہم مباحث، اسٹیج پروگرام، شاعری اور نغموں کے ذریعہ آئین کے حقیقی نظریات کا جشن منانے والے تھے۔ اس انعقاد میں شامل ہونے والے لوگ اپنے اپنے شعبہ کے ماہر ہیں اس لیے یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کے لیے ایسی شخصیتوں سے روبرو ہونے کا ایک نایاب موقع تھا۔

لیکن تقریب منعقد ہونے سے ٹھیک ایک دن پہلے، یعنی 16 ستمبر کو ہمیں زبانی طور پر مطلع کیا گیا کہ تقریب کی اجازت منسوخ کر دی گئی ہے اور ہمیں وہاں پروگرام نہیں کرنے دیا جائے گا۔

یہ اطلاع ہمارے لیے ایک ناگہانی آفت کی طرح تھی۔ میں نے فوراً آپ سے رابطہ کیا اور اجازت بحال کرنے کی کوشش کی۔ فون پر ہوئی بات چیت میں آپ نے کہا کہ چونکہ مقام تقریب پر تعمیراتی کام کیا جانا ہے اس لیے اجازت کو منسوخ کیا جا رہا ہے۔ میں نے جب آپ سے پوچھا کہ پھر ہمیں اجازت کیوں دی گئی تھی؟ تو آپ کا جواب تھا کہ اجازت الٰہ آباد میں کہیں بھی تقریب منعقد کرنے کے لیے تھی۔

محترم، آپ اس بات کو مانیں گے کہ یونیورسٹی احاطہ سے باہر کسی بھی انعقاد کے لیے ہمیں آپ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ اجازت منسوخ کرنے کا سبب (تعمیری کام) کتنا کمزور ہے، جو آپ نے ہمیں بتایا ہے۔

بہر حال، جب میں نے اس طرف اشارہ کیا کہ اجازت نامہ میں یونیورسٹی احاطہ کے ایک ہال کا نام لکھا ہے تو آپ نے واضح طور پر کہا کہ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کا بہت زیادہ دباؤ ہے اور آپ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے ہی ذریعہ دی گئی اجازت کو منسوخ کرتے ہوئے آپ کو کتنی تکلیف ہوئی ہوگی۔ اس اجازت کو منسوخ کرنے سے پہلے آپ نے کس طرح کا درد اور بے عزتی محسوس کی ہوگی، اسے صرف آپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔

میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہماری کوشش رائیگاں ہوتی دیکھ کر آپ کو تکلیف ہوئی ہوگی۔ جن طاقتوں نے آپ کو ایسا کرنے کے لیے مجبور کیا ان کے سامنے جھکتے ہوئے آپ نے خود کو کتنا بے بس محسوس کیا ہوگا۔

دراصل اس انعقاد کی آہٹ پاتے ہی آر ایس ایس اور ودیارتھی پریشد کی مقامی یونٹوں نے فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذریعہ افواہیں پھیلانا شروع کر دی تھیں۔ انعقاد میں شامل ہونے والے مقررین کے بارے میں قابل اعتراض پمفلٹ تقسیم کیے گئے اور انھیں ملک مخالف بتایا گیا۔ ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم الٰہ آباد یونیورسٹی کو جے این یو بنا کر طلبا کے درمیان نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔

لیکن، اچھا ہی ہوا کہ آپ نے یہ اجازت منسوخ کر دی۔ اگر ہم یہ انعقاد کر لیتے تو لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو جاتی کہ جمہوریت کے مختلف ادارے اور اداروں کی آزادی ابھی بچی ہوئی ہے۔ اور یہ بھی کہ اداروں کی خودمختاری بچائے رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ اچھا ہی ہوا کہ ہمیں پختہ طور پر پتہ چل گیا کہ اب اداروں کی آزادی ختم ہو چکی ہے اور آپ جیسے آزاد خیال دانشور بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ یونیورسٹیوں کے سربراہوں پر چہار جانب سے دباؤ ہے اور انھیں ایسے لوگوں کے سامنے جھکنا پڑ رہا ہے جنھوں نے سبھی اداروں اور سماجی مقامات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب انفرادی آزادی اور خودمختاری بھی ہم سے چھین لی جائے گی۔

مجھے لگتا ہے کہ یہ اچھا ہی ہوا کہ ہمیں پھر سے اس تاریک ماحول کی یاد دلائی گئی جس میں اس وقت ہم سانس لے رہے ہیں، ایسا ماحول جس میں ملک کے آئین تک کو شبہات کے ساتھ دیکھا جانے لگا ہے اور آزادی اور تنقیدی نظریات والے لوگوں کو ملک مخالف کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ رائنر ماریا رِلکے نے لکھا ہے ’’ہماری آنکھیں تبھی دیکھنے لائق ہوں گی جب تاریکی پوری طرح پھیل جائے گی۔‘‘

آپ کا لائق اسٹوڈنٹ ہونے کے ناطے ہم تیزی سے بڑھتے خوف کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہم طے تاریخ اور دن کو اس ہال کے سامنے والے لان میں اپنی تقریب کریں گے، جہاں ہمیں پہلے اجازت دی گئی تھی۔ ہمیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہم پر غلط قوتوں کے ذریعہ حملہ ہو سکتا ہے اور ہماری تقریب کو بند کرانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ آزادی نہ تو دی جاتی ہے اور نہ ہی پائی جاتی ہے۔ ہر کسی کو ہر وقت نہ صرف محتاط رہنا ہے بلکہ آزادی کے لیے ہر لمحہ جدوجہد بھی کرنا ہے۔

ہم پولس کے پاس بھی سیکورٹی فراہم کرنے کی گزارش کرنے نہیں جائیں گے اور آزادی کے اپنے حق کے لیے ہم کوئی بھی نتیجہ بھگتنے کو تیار ہیں۔

ہم آپ کو بھروسہ دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں آپ کے لیے کوئی تلخی نہیں ہے۔ آپ جیسے دانشوروں کے لیے شاید یہ تذبذب کی حالت بھی ہے کہ آج کی برسراقتدار طاقتوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے کس طرح اداروں کو چلایا جائے۔

مجھے اب بھی امید ہے کہ آپ ہماری تقریب میں اپنی انفرادی حیثیت سے شامل ضرور ہوں گے۔

شکریہ اور بصد احترام

منیش شرما

جوائنٹ ایکشن کمیٹی

الٰہ آباد یونیورسٹی

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Sep 2017, 7:42 PM