ای وی ایم کے خلاف ’پیدل یاترا‘: سو دن سفر کے بعد کرناٹک پہنچے اونکار سنگھ

’بینک ٹو بیلٹ‘ اور ’ای وی ایم ہٹاؤ، دیش بچاؤ‘ نعرہ کے ساتھ رودر پور سے ملک بھر کا پیدل سفر کرنے نکلے اونکار سنگھ یو پی، ہریانہ، راجستھان، ایم پی، گجرات، مہاراشٹر ہوتے ہوئے اب کرناٹک پہنچ گئے ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتراکھنڈ کے رودرپور میں اونکار سنگھ ڈھلوں کی لانڈری کی دکان میں گزشتہ 100 دنوں سے تالا لگا ہے۔ 18 اگست کو انھوں نے 75 کلو وزن والی ٹرالی لی، اس میں اپنے ضروری کپڑے رکھے اور ای وی ایم پر پابندی لگانے کے لیے گھر سے ملک بھر کے پیدل سفر پر نکل گئے۔ ’بیک ٹو بیلٹ‘ اور ’ای وی ایم ہٹاؤ، دیش بچاؤ‘ نعرے کے ساتھ ٹرالی کے اوپر قومی پرچم ترنگا لگا کر رودر پور سے ملک بھر کا پیدل سفر کرنے کے لیے نکلے اونکار سنگھ اتر پردیش، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر ہوتے ہوئے اس وقت کرناٹک پہنچ چکے ہیں۔

اونکار سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’اسی سال مئی میں آئے لوک سبھا الیکشن کے نتائج میں بی جے پی کی جیت ناقابل یقین تھی، کیونکہ لوک سبھا الیکشن کے نتائج آنے کے بعد خود بی جے پی حامیوں کے چہروں پر خوشی نہیں تھی۔ ان کے مخالف اور حامی ہر کوئی حیرت میں تھا۔ ہم نے اپنے آس پڑوس میں محسوس کیا کہ جن علاقوں میں بی جے پی کی مخالفت ہو رہی تھی وہاں بھی بی جے پی کو زبردست ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ لوگوں نے ووٹ ای وی ایم میں دیا اور ای وی ایم کا جس کو دل کیا اسے دے دیا۔‘‘ غور طلب ہے کہ پی ایم مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت دوبارہ آنے کے بعد سے ملک بھر میں ای وی ایم کو لے کر سوال اٹھے ہیں۔ کئی سیاسی پارٹیوں نے بھی حیران کن نتائج کو لے کر سوال کھڑے کیے تھے، لیکن ای وی ایم میں خامی کو ثابت نہیں کر پائے۔


اس وقت اونکار سنگھ بنگلورو سے 95 کلو میٹر کی دوری پر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپنے اب تک کے سفر کے دوران وہ سڑک کے کنارے یا پٹرول پمپ پر سوتے رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے کھانے-خرچ کے پیسے تو لے کر چلے تھے، لیکن ٹھہرنے کا پیسہ لے کر نہیں آئے۔ پہلے انھوں نے اس کی ضرورت نہیں محسوس کی تھی، لیکن جب اجمیر میں ان پر حملہ ہوا تو انھیں رات میں سونے کے لیے محفوظ جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اونکار سنگھ نے کہا کہ ’’اجمیر میں مجھ پر تین بار حملہ ہوا۔ ان کو میرے ترنگا ساتھ لے کر چلنے پر اعتراض تھا۔ وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ میں ملک مخالف کام کر رہا ہوں۔ مجھے ای وی ایم کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔ انھوں نے میری جان لینے کی کوشش کی۔‘‘

اونکار سنگھ نے بتایا کہ اجمیر میں حملہ ہونے کے بعد پولس نے انھیں کوئی سیکورٹی تو مہیا نہیں کرائی، لیکن ان کی کوشش لوگوں میں مشتہر ہو گئی اور بہت سارے لوگوں کو یہ پتہ چل گیا کہ کوئی شخص ای وی ایم کے خلاف ملک بھر کے پیدل سفر پر نکلا ہوا ہے۔ اونکار نے کہا کہ ’’اس سے میری عوامی حمایت بڑھ گئی اور میں جہاں بھی جاتا تھا، وہاں لوگ میری حمایت میں آنے لگے۔ یہاں تک کہ جب میں گجرات پہنچا تو وہاں تمام بڑے لیڈر یہ خبر جان گئے تھے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ اس کے بعد وہ گجرات پہنچے اور وہاں انھوں نے جگنیش میوانی، ہاردک پٹیل اور شنکر سنگھ واگھیلا جیسے لیڈروں سے ملاقات کی۔ اونکار کہتے ہیں کہ یہ سبھی لیڈر ان کی بات سے متفق تھے اور مانتے تھے کہ ای وی ایم میں کچھ نہ کچھ ہے، لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ہی لڑائی آگے نہیں بڑھ پائی۔ انھوں نے کہا کہ اگر ای وی ایم میں کوئی گڑبڑی نہیں تھی تو ووٹوں کی گنتی میں فرق کیوں آیا!


اونکار سنگھ بتاتے ہیں کہ جس گجرات ماڈل کو وہ لوگ ملک بھر میں نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں، وہیں سب سے زیادہ تاجر اور کسان پریشان ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ احمد آباد، بھروچ، وڈودرا اور واپی گئے اور انھیں سب جگہ ای وی ایم سے غیر مطمئن لوگ ملے۔ اونکار کہتے ہیں کہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ واپس بیلٹ پر آنا ہی جمہوریت کے لیے اچھا ہے۔ وہ اس معاملے پر میڈیا کے رویہ سے خاصے ناراض ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میڈیا کے لوگ ان کے پاس آتے ہیں، بات کرتے ہیں، لیکن خبر نہیں دکھاتے۔

اونکار سنگھ کا کہنا ہے کہ اپنی پیدل یاترا کا اختتام وہ راجدھانی دہلی میں گاندھی جی کی سمادھی راج گھاٹ پر کریں گے۔ ایسا وہ پورے ہندوستان کا پیدل سفر کرنے کے بعد ہی کریں گے۔ اونکار کے مطابق کرناٹک میں بھی انھیں اچھی حمایت ملی ہے، جہاں سے وہ تمل ناڈو جائیں گے۔ اونکار کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہے جس میں ہر کام تاریخ میں درج کیا جائے گا۔ اس لیے وہ ملک کے تئیں اپنی ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں۔ ای وی ایم ہٹانا ملک بچانے جیسا ہے۔


یاترا پر نکلنے سے پہلے انھوں نے اپنی ڈاکٹر بیوی کو بھی کچھ نہیں بتایا، جب کہ اپنے والدین سے آشیرواد لیا اور بہن کو کہا کہ وہ ان کی بیوی اور ان کے دو بچوں کا خیال رکھیں۔ جب وہ بلاس پور پہنچے تو ان کی بیوی سمن سنگھ کا فون آیا جس میں انھوں نے بغیر بتائے چلے آنے کی وجہ پوچھی۔ اونکار کہتے ہیں ’’میں اپنے ملک سے بہت محبت کرتا ہوں اور ظاہر ہے مجھے اپنی بیوی اور بچے سے بھی محبت ہے۔ میرے دو بچے ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں کے تئیں میری گہری ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر اس وقت میں اپنی بیوی سے بات کر لیتا تو شاید میرا پورے ملک میں ای وی ایم کی مخالفت میں پیدل یاترا کا ارادہ کمزور پڑ جاتا۔ میں ہر حال میں نکلنا چاہتا تھا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ شفافیت اور صحت مند جمہوریت کے لیے ای وی ایم پر پابندی بہت ضروری ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Nov 2019, 6:11 PM