جی ایس ٹی کا ایک سال: بند ہوئے سیکڑوں کارخانے، لاکھوں پیتل کاریگر بے روزگار

مرادآباد میں ہوئے بے روزگار پیتل کاریگر یا تو شہر چھوڑ کر ہجرت کر گئے یا پھر دوسرا روزگار ڈھونڈنے یارکشہ چلانے کو مجبور ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ناظمہ فہیم

مرادآباد: مرکزی ٹیکس جی ایس ٹی کو نافذ ہوئے ایک سال پورا ہوگیا ہے حکومت جہاں اس کو کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہے وہیں اس کے الٹ مرادآباد میں پیتل صنعت سے جڑے کاروباری اس فیصلے کو مایوس کن بتارہے ہیں کیونکہ جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے مرادآباد کی پیتل صنعت بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔ایک سال میں تین سو سے زیادہ چھوٹے بڑے پیتل کارخانے بند ہوگئے ہیں جس کے چلتے ایک لاکھ سے زیادہ پیتل سے جڑے کاریگر بے روزگار ہوگئے ہیں ، بے روزگار ہوئے پیتل کاریگر یا تو شہر چھوڑ کر ہجرت کر گئے ہیں یا پھر دوسرا روزگار ڈھونڈنے یارکشہ چلانے کو مجبور ہیں۔

نمائندہ ’قومی آواز‘ نے شہر میں جی ایس ٹی کے ایک سال پورا ہونے کے بعد کے حالات کاجائزہ لیا تو پتہ چلا کہ پیتل کے کاروبار سے جڑے وہ کارخانیدار جن کے زیرِ سایہ ایک سے دو درجن کاریگرکام کرکے اپنی روزی روٹی کماتے تھے ، آج وہ کارخانیدار خود بے روزگار ہوکر رکشہ ،ٹھیلہ یا پھر ہفتہ بازاروں میں پھڑ لگانے کو مجبور ہیں۔ ایسے میں ان کاریگروں کا کیا حال ہوا ہوگا جو ان کارخانیداروں کے یہاں مزدوری کرکے اپنی گزر بسر کا سامان کرتے تھے۔

ہینڈی کرافٹ ایسو سی ایشن سے جڑے ضمیر احمد ونعمان منصوری اپنے اپنے بند پڑے کارخانوں میں لے گئے جو گذشتہ ایک سال سے جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے بند پڑے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے یہاں ماروثی پیتل کاریگری کا کام ہوتا آیا ہے ہر وقت تقریباً بیس سے تیس کاریگر ان کے کارخانے میں کام کرتے تھے لیکن جی ایس ٹی کے بعد ایکسپورٹ فرموں سے کام ملنا بند ہوگیا جی ایس ٹی کی پیچیدگیوں کو ان کی حیثیت کے کارخانیدار نہیں سمجھ سکے اس لئے کارخانوں کو بند کرنا پڑا۔

ایک اور کارخانیدار نے بتایا کہ اب تک جتنی بھی جی ایس ٹی جمع کی وہ ریفنڈ نہیں ہوپائی جس کی وجہ سے آگے کا کام چلانا مشکل ہوگیا تھا اس لئے کارخانہ بند ہی کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو پہلے جی ایس ٹی سے جڑے معاملات درست کرنے چاہئے تھے اس کے بعد جی ایس ٹی کو نافذ کرنا چاہئے تھا ۔ اگر حکومت اس کے لئے سنجیدہ ہوتی تو آج مرادآباد کی قدیمی صنعت کا یہ حال نہیں ہوا ہوتا۔

کارخانیدار ایسو سی ایشن کے صدر اعظم انصاری کے مطابق مرادآباد سے ایک سال پہلے بارہ ہزار کروڑ کا کاروبار ہوتا تھا جو اب گھٹ کر سات ہزار کروڑ پر آگیا ہے، گھریلو کاروبار پر بھی خاصہ اثر پڑا ہے۔انھوں نے کہا کہ مرادآباد کی پیتل صنعت گھریلو صنعت ہے مگر جی ایس ٹی کے بعد اپنے گھروں میں کام کرنیوالے کاریگروں کو کام ملنا بند ہوگیا جس کی وجہ سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بے روز گاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ پیتل کاروباریوں کو روزی روٹی کے لئے نیپال یا پھر ملک کے دوسرے صوبوں جیسے کیرالا وغیرہ میں جاکر روزی تلاش کرنی پڑ رہی ہے۔

ان لوگوں نے بتایا کہ شہر کے بڑے ایکسپورٹ ہاؤس جو کارخانیداروں کو آرڈر دیتے تھے اورجن کارخانوں کے ذریعہ پیتل کاریگروں کو کام ملتا تھا، جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے ایکسپورٹروں نے کارخانوں کو کام دینا بند کردیا ہے کیونکہ پہلے پوری طرح سے ہینڈی کرافٹ ڈیوٹی فری تھا، کارخانوں کو ایکسپورٹر کے بعد سیل ٹیکس میں حساب دینا ہوتا تھا لیکن اب 18 فیصد جی ایس ٹی پہلے کارخانوں کو دینی پڑ رہی ہے اور جس کے ریفنڈ کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارخانیدار کی مشکلیں اس قدربڑھ گئیں کہ انہیں اپنا کاروبار بند کرنا پڑگیا۔

جی ایس ٹی کو لے کر مودی حکومت کتنی ہی اپنی پیٹھ تھپتھپائے مگر یہ سچ ہے کہ جی ایس ٹی نے ملک کے چھوٹے کاروباریوں کو سڑک پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔