نوٹ بندی: عجیب احساس اور بیکسی

وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ لو گ پرانے نوٹوں کو لے کر حیران اور پریشان گھوم رہے تھے ۔ بینکوں کے سامنے قطار کی قطار نظر آنے لگیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کو ئی فر ی چیز تقسیم ہو رہی ہو

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

علی حیدر

یہ رپورٹ قومی آواز پر 8 نومبر 2017 کو شائع ہو چکی ہے

8 نومبر 2016 بروز سہ شنبہ بوقت 8 بجے میں حسب معمول ٹی وی کے سامنے بیٹھا ریموٹ کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ یکا یک وزیر اعظم نر یند مودی ٹی وی پر نمودار ہوئے، اس وقت تو میں یہی سمجھا کہ شائد کو ئی تقریر یا من کی بات کرنا چاہتے ہیں ، لیکن جیسے ہی انہوں نے کہا کہ آج آدھی رات سے 500 اور ایک ہزار کے پرانے نو ٹ بند ہو جائیں گیں۔

پہلے تو کچھ دیر تک سمجھ میں ہی نہ آیا کہ مودی جی کیا کہہ رہے ہیں ۔ جب سمجھ میں آیا تو سب سے پہلے جیب میں ہا تھ گیا تو دیکھا کہ جیب میں 500 کے دو نوٹ ہیں ، پھر میں نے آواز لگا کر اپنی اہلیہ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس 500سو اور ہزار کے نوٹ تو نہیں ہیں ان کے پاس بھی 500 کا نوٹ نکلا ، میں نے بچو ں کو بلا کر کہا کہ جاؤ دوکان سے کچھ خرید لاؤ ، میر ے دو بچے اور ایک بھتیجا ایک ایک نو ٹ لے الگ الگ دکان پر بے ضروری سامان خریدنے کے لئے ، جب بچے واپس آئے تو ان کے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ غیر ضروری سامان تھا مگر اس بات کی بے حد خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ چلو تینوں نوٹ چل گئے۔

بچوں نے آکر بتایا کہ نوٹ چل گئے البتہ نوٹ بندی کی خبر پھیلنا شروع ہو گئی ہے اور کچھ دکان دار اب پرانے نوٹ لینے سے منع کر رہے ہیں ، ہم سبھی لوگ ٹی وی کے سامنے جمے بیٹھے تھے مختلف چینلوں پر طرح طرح کی خبریں نشر ہو رہی تھیں ، پیٹرول پمپوں پر ہنگا مہ آرائی کی خبریں بھی آنے لگیں لو گوں کے تاثرات بھی ٹی وی والے دیکھنانے لگے۔برابر میں بیٹھی میری اہلیہ نے برا سا منھ بنا کر وزیر اعظم کو کچھ ایسے الفاظ کہے جو کہ میں لکھ نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ پہلے ہی سے آئے دن سبزیوں اور گیس سلینڈرکی قیمتوں میں اضافہ سے نریند ر مودی سے نالاں تھی۔

سب سے پہلے میں نے اپنے گاؤں بڑے بھائی کو فون کر کے بتایا کہ آج رات 12 بجے سے 500 اور ہزار کے نوٹ بند ہو جائیں گے، ان کو بھی پہلے یقین نہیں آیا۔ اس کے بعد کئی لوگوں سے میری فون پر بات ہوئی، سبھی حیر ت زدہ تھے کہ اب کیا ہوگا؟۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ لو گ پرانے نوٹوں کو لے کر حیران اور پریشان گھوم رہے تھے ۔ بینکوں کے سامنے قطار کی قطار نظر آنے لگیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کو ئی فر ی چیز تقسیم ہو رہی ہو جس کو لینے کے لئے لوگ بے تاب ہیں ،ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان لوگوں کو یہ خدشہ ہو کہ تقسیم ہونے والی شئی کہیں ختم نہ ہو جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Nov 2017, 12:48 PM