بلقیس بانو کے زانیوں کی رِہائی معاملہ پر سپریم کورٹ نے مرکز اور گجرات حکومت سے مانگا جواب

بنچ نے معاملے میں شامل فریقین کو سماعت کی اگلی تاریخ تک دلیلیں پوری کرنے کی ہدایت دی اور ساتھ ہی ریاستی حکومت کو سماعت کی تاریخ پر قصورواروں کو چھوٹ دینے سے جڑی فائلوں کے ساتھ تیار رہنے کو کہا۔

بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز 2002 کے گجرات فسادات کی متاثرہ بلقیس بانو کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری اور اس کے کنبہ کے اراکین کے قتل کے قصوروار 11 لوگوں کی وقت سے پہلے رِہائی کے خلاف داخل عرضی پر نوٹس جاری کرتے ہوئے اس جرم کو اندوہناک بتایا۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے کہا کہ عرضی پر سماعت سے پہلے عدالت یہ جاننا چاہے گی کہ ایشو کا دائرہ کیا ہے، جو اس ڈھانچے کو جاننے میں مدد کرے گا جس کے اندر ایشوز پر غور کیا جانا ہے۔

بلقیس بانو کی نمائندگی کرنے والی وکیل شوبھا گپتا نے بتایا کہ ریاست (مہاراشٹر) جہاں ٹرائل کیا گیا تھا، اس کو قصورواروں کی چھوٹ پر فیصلہ لینا چاہیے، نہ کہ اس ریاست کو جہاں جرم کیا گیا تھا۔ معاملہ کی سماعت کے دوران بنچ نے زبانی طور سے کہا کہ یہ جرم بھیانک تھا۔


عرضی دہندگان میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والی وکیل ورندا گروور نے دلیل دی کہ ٹرائل جج نے کہا کہ کوئی چھوٹ نہیں دی جانی چاہیے اور سی بی آئی نے بھی کہا کہ چھوٹ نہیں دی جانی چاہیے، پھر بھی انھیں رِہا کر دیا گیا۔ جیسا کہ ججوں نے پوچھا کہ ہر ملزم نے کتنے سال جیل میں گزارے ہیں، ایک قصوروار کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ 15 سال اور 14 سال سے زیادہ اور گجرات حکومت کی چھوٹ پالیسی کے تحت اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ عرضی دہندگان میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اس کی مخالفت کی تھی۔

گروور نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پیرول پر رہتے ہوئے قصوروار کے خلاف خاتون سے چھیڑ چھاڑ کا ایک اور معاملہ درج کیا گیا تھا اور چھوٹ دیتے وقت اسے پوری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں سماعت کے دوران دلیل دی گئی کہ 11 قصورواروں کی رِہائی کے خلاف سبھی عرضیاں جذباتی دلائل پر مبنی تھیں۔ حالانکہ بنچ نے کہا کہ یہ صرف قانون پر ہے اور اس کا جذبات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلقیس بانو اور اس کے کنبہ کے خلاف جرم کو خوفناک بتاتے ہوئے بنچ نے واضح کیا کہ اس معاملے کا فیصلہ قانون کی بنیاد پر کیا جائے گا۔


تفصیلی دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے معاملے کی آئندہ سماعت 18 اپریل کو مقرر کی۔ جسٹس جوزف نے کہا کہ عدالت کے پاس قتل کے کئی معاملے ہیں جہاں قصوروار سالوں سے چھوٹ کے لیے جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور سوال کیا کہ کیا یہ ایسا معاملہ ہے جہاں دیگر معاملوں کی طرح یکساں طور سے پیمانوں کو نافذ کیا گیا ہے؟

بنچ نے معاملے میں شامل فریقین کو سماعت کی آئندہ تاریخ تک دلیلیں پوری کرنے کی ہدایت دی اور ساتھ ہی ریاستی حکومت کو سماعت کی اگلی تاریخ پر قصورواروں کو چھوٹ دینے سے جڑی متعلقہ فائلوں کے ساتھ تیار رہنے کو کہا۔ دلیل میں بلقیس بانو نے کہا کہ سبھی قصورواروں کی وقت سے پہلے رِہائی کی خبر نہ صرف عرضی دہندہ، اس کی بڑی بیٹیوں، اس کے گھر والوں کے لیے، بلکہ بڑے پیمانے پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر سماج کے لیے جھٹکے کی شکل میں آئی اور سبھی طبقات کے سماج نے معاملے کے 11 قصورواروں کو رِہا کر کے حکومت کے ذریعہ دکھائے گئے رحم کے تئیں اپنا غصہ، مایوسی، عدم اعتمادی اور مخالفت ظاہر کی تھی۔


عرضی میں رِہائی کے حکم کو میکانیکل بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مشہور بلقیس بانو معاملے میں قصورواروں کی وقت سے پہلے رِہائی نے سماج کی روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتیجہ کار ملک بھر میں کئی تحریکیں ہوئی ہیں۔ سبھی 11 قصورواروں کو گجرات حکومت نے چھوٹ دی تھی اور گزشتہ سال 15 اگست کو رِہا کر دیا تھا۔

بلقیس بانو کی عرضی سمیت 11 قصورواروں کی رِہائی کے خلاف عرضیوں کا ایک بیچ داخل کیا گیا ہے۔ دیگر عرضیاں سی پی ایم لیڈر سبھاسنی علی، ترنمول کانگریس رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا، نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن، میران چڈھا بورونکر اور عاصمہ شفیق شیخ اور دیگر کے ذریعہ داخل کی گئی تھیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں داخل سبھی عرضیوں پر نوٹس جاری کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔