شہید نواب مجّو خاں کی یوم شہادت کے موقع پر...شاہد صدیقی علیگ

مجّو خاں، عباس خاں، راشد خاں، اولاد نواب دوندے خاں، نواب شبیر علی خاں اور مولانا کفایت علی کافی جیسے انقلابیوں نے تحریک گلوخلاصی کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی

<div class="paragraphs"><p>شاہد صدیقی علیگ</p></div>

شاہد صدیقی علیگ

user

شاہد صدیقی علیگ

ہندوستان کی تحریک آزادی میں جن بے شمار حریت پسندوں نے دامے دُرمے سخنے اپنی جانوں کی بازی لگا کر قر بانیاں پیش کی ہیں۔ان میں نواب مجید الدین عرف نواب مجّو خاں کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جنہوں نے تختہ دار ہونا منظور کیا لیکن کمپنی حکام کے آگے سرنگوں ہونا گوارہ نہ کیا، حتیٰ کہ جب جسٹس ولسن نے اپنے کارندے گنیش کے ذریعے تیس ہزار روپے کے عوض سودے بازی کرنے کی کوشش کی تو نواب مجّو کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے۔ انہوں نے آگ ببولا ہو کر جواب دیا کہ مادر ہند کی حرمت کے آگے میری حیات مستعار کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

میرٹھ کے باغی سپاہیوں نے جب 10 مئی1857 ء کوپہلی ملک گیر جدوجہد آزادی کا علم بلند کیا اس وقت پورا شمالی ہند تمازت آفتاب کی تپش سے جھلس رہا تھااور انگریز حکام پہاڑوں کی ٹھنڈی فضاؤں میں جانے کے لیے رخت سفر باندھ رہے تھے۔لیکن اپنے نمک خوار سپاہیوں کی بغاوت کی خبر سن کر ان کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔


انقلاب میرٹھ کی خبر مراد آباد میں 11 مئی کو ایک سوار کے ذریعے پہنچی جسے سنتے ہی حریت پسندوں کے جوش و جنون کی انتہا نہ رہی۔ مجّو خاں، عباس خاں، راشد خاں، اولاد نواب دوندے خاں، نواب شبیر علی خاں اور مولانا کفایت علی کافی جیسے انقلابیوں نے تحریک گلوخلاصی کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مولانا زین العابدین نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ مولانا کفایت علی کافی نے فتویٰ جہاد کی اشاعت کے سلسلے میں دوردراز کا سفر کیا۔ موقع ومحل کو دیکھ کر 12 مئی کو کمپنی حکام نے دیسی افواج کوپریڈ پر بلاکر یقین دلایا کہ نئے کارتوسوں کا مستقبل میں استعمال نہیں ہوگا لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ انجام کار 3 جون کو 29 ویں رجمنٹ نے اطا عت کا جوا اتار پھینکا۔

نواب مجّو خاں شہر کے بڑے معزز جاگیر دار خانوادے کے فرد تھے لہٰذا باغی سپاہیوں اور انقلابیوں نے مجّو خاں کو بہ رضا و رغبت شہر کی نظامت سونپ دی۔ جس کے بعد انگریز افسران نے مراد آباد سے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی اور نینی تال میں گوشہ نشین ہو گئے۔ نواب مجّو خاں نے کچھ عرصے تک بڑی ذمے داری سے شہر کا انتظام سنبھالا لیکن انگریزی بہی خواہ یوسف علی خاں کو مجّو خاں کی نظامت برداشت نہیں ہوئی۔جو ان کے خلاف مسلسل سازشیں رچتا رہا۔ و قت کا پہہ گھومنے کے 5ساتھ ہی اپنوں کی کارستانیوں کے سبب سقوط دلّی کا دل خراش واقعہ بھی سامنے آیا۔ لیکن قابل ذکر امر یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کی بیخ کنی کے بعد بھی مجاہدین کی سرگرمیاں کم ہونے کے بجائے مزید تیز ہوگئیں۔اسی اثنا میں 21/اپریل 1858ء کو مغل شہزاد ہ فیروز شاہ سنبھل ہوتے ہوئے مراد آباد میں داخل ہوا۔فیروزشا ہ اور نواب را م پور کے سپاہیو ں کے مابین نزد روضہ شاہ بلاقی پہ جھڑپ ہوئی۔ نواب رام پور کو اپنے تجربہ کار فوجیوں اورسامان حرب سے ہاتھ دھوناپڑا۔ اس کی فوج مرادآباد سے بھاگ کھڑی ہوئی، لیکن بجنو ر پر دوبارہ کمپنی عمل داری قائم کرنے کے بعد 25/اپریل1858ء کوجنرل جونس مراد آباد آیااور اس نے آتے ہی انقلابیوں کی د اروگیر اور عتاب کا سلسلہ شروع کردیا ۔


نواب مجوّ خاں کو پکڑنے کے لیے نکلسن نے رگھوپت سہائے جاٹ اور نرمل سنگھ کے ساتھ انگریزی دستوں کو بھیجا،لیکن مجّو خاں نے مخالف ہوا دیکھ کر بھی ہتھیار ڈالنا گوارہ نہ کیا۔دونوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔لیکن طاقت ور انگریزی دستے کا سامنا آخر کب کرتے۔ الحاصل سنگ دل انگریزوں نے نواب مجّو خاں کوزخمی حالت میں گرفتار کرنے کے بعد ان کی حویلی میں رکھے چونے میں ڈوبا یا اور ہاتھی کے پیر سے بندھوا کر تمام شہر میں گھمایا۔جن کے آ ٓگے آگے نقیب ڈھول پیٹتا ہوا جا رہا تھا کہ کمپنی بہادرسے بغاوت کرنے والوں کا حشر یہی ہوتا ہے اور آخرکار ان کو گلشہید میں املی کے پیڑ پر سرعام 25 اپریل 1858 کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔بعد ازاں ان کی لاش کو پٹن شہید مسجد کے عقب میں واقع قبرستان میں دفن کر دیا۔ آج بھی قبرستان میں کھڑا املی کا درخت ان کی شہادت کی گواہی دے رہا ہے جو اپنے اندر شہیدان وطن  پر ہونے والے مظالم کی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔