تاریخ بن چکے AIR نیشنل چینل کو اس کے اَفسران ہی لے ڈوبے

آل انڈیا ریڈیو کے سابق اناؤنسر انس فیضی کا کہنا ہے کہ ’’اے آئی آر نیشنل کا زوال تو کافی پہلے ہی شروع ہو چکا تھا کیونکہ یہاں آر جے کو وہ عزت ملنی بند ہو گئی تھی جو پہلے ملا کرتی تھی۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

’’مرکزی حکومت کے ذریعہ اے آئی آر کا قومی نشریہ بند کرنے کا فیصلہ افسوسناک ہے۔ یہ خبر سن کر مجھے ایک دھکّا سا لگا۔ اے آئی آر سے جذباتی طور پر جڑے سامعین بہت زیادہ تکلیف میں ہیں اور ایک دن کے اندر میرے پاس کم و بیش 150 لوگوں کے فون آ چکے ہیں جو حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔‘‘ یہ کہنا ہے مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے 68 سالہ شیواجی پاٹل کا۔ شیوا جی پاٹل کا اے آئی آر سے رشتہ کافی گہرا ہے اور اس سے ان کی بہت ساری یادیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے ایک اسکول میں پرنسپل رہ چکے ہیں لیکن اے آئی آر کے پروگرام سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی بار دہلی آ کر وہ اے آئی آر افسران سے ملاقات کر پروگرام کا معیار بہتر کرنے کے لیے نیک مشورے دیتے رہے ہیں۔ وہ اس تاریخی ریڈیو چینل سے سامعین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدام اٹھانے کی اپیل بذریعہ ای میل وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی کر چکے ہیں، لیکن ان کی سبھی کوششیں اب رائیگاں ہی معلوم ہو رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اے آئی آر نیشنل چینل بند ہونے کے لیے پرسار بھارتی کےا فسران ذمہ دار ہیں جنھوں نے نہ ہی سامعین کی دلچسپی کا خیال رکھا اور نہ ہی پروگرام کے معیار کو تنزلی کی طرف جانے سے روکا۔‘‘

انتہائی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شیواجی پاٹل کہتے ہیں کہ ’’اچھے اناؤنسر کو دھیرے دھیرے ہٹا دیا گیا اور ایسے لوگ بھرتی کیے گئے جن کا نہ تو تلفظ صحیح تھا اور نہ ہی وہ اناؤنسر کی ذمہ داری پوری کر پاتے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اے آئی آر افسران سے کئی بار کہا کہ اناؤنسر میں کچھ کمزوری ہے، پروگرام میں خامی ہے اور پروگرام جاری کرنے سے پہے کم از کم ایک گھنٹہ ضروری سنیں، لیکن کسی بھی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔‘‘

دراصل گزشتہ 3 جنوری کو ’پرسار بھارتی‘ نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں آل انڈیا ریڈیو کے نیشنل چینل اور پانچ ریاستوں میں موجود ریجنل ٹریننگ سنٹر کو فوری اثر سے بند کرنے کی بات کہی گئی۔ اس حکم نامہ کے ساتھ ہی تین دہائیوں پر مشتمل آل انڈیا ریڈیو کا نیشنل چینل تاریخ کے صفحات میں قید ہو گیا۔ یہ قدم مرکزی حکومت کے ذریعہ ’کوسٹ کٹنگ‘ یعنی خرچ کم کرنے کے نام پر اٹھایا گیا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ریڈیو چینل کو ذمہ داران نے ایسا نظر انداز کر دیا تھا کہ پروگرام کا معیار لگاتار گرتا ہی جا رہا تھا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں اس کی کوئی فکر ہی نہیں تھی۔ آل انڈیا ریڈیو میں کافی عرصہ تک اناؤنسر اور آر جے کام کر چکے انس فیضی کہتے ہیں کہ ’’ہماری حکومت تخلیقی سے زیادہ تخریبی ہے۔ اس نے آل انڈیا ریڈیو کو دوسرے ریڈیو چینلز کی طرح معیاری بنانے کی جگہ ’کوسٹ کٹنگ‘ کے نام پر بند کرنا بہتر سمجھا جو مایوس کن ہے۔ یقیناً اس قدم سے پیسے بچیں گے لیکن ایک تاریخ کا خاتمہ بھی ہو گیا۔‘‘

انس فیضی آل انڈیا ریڈیو میں اپنے تجربات کا تذکرہ بیان کرتے ہوئے ’قومی آواز‘ سے کہتے ہیں کہ ’’اس ریڈیو چینل کا زوال تو کافی پہلے سے ہی شروع ہو چکا تھا کیونکہ یہاں آر جے کو وہ عزت ملنی بند ہو گئی تھی جو پہلے ملا کرتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ افسران کو اچھے آر جے سے کوئی دلچسپی رہ گئی تھی اور نہ ہی اس کے پروگرام کے معیار سے۔ ریڈیو کے ریگولر اسٹاف، پروڈکشن میں شامل لوگ، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر... کسی کو پروگرام کے معیار سے کوئی مطلب نہیں رہ گیا تھا۔ انتظامیہ کی خراب روش کی وجہ سے کئی اچھے اناؤنسر نے احتجاجاً ریڈیو کو خیر باد کہہ دیا تو کچھ نے بے توجہی کا شکار ہونے کے سبب اپنا راستہ الگ کر لیا۔‘‘

انس فیضی نے بھی تقریباً ایک سال قبل احتجاجاً آل انڈیا ریڈیو سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور انھوں نے وہاں کے مایوس کن ماحول کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ’’آل انڈیا ریڈیو کا 50 سالہ جشن جب منایا گیا تو اس کے لیے انھیں اے آئی آر اور دوردرشن کے پاس سے ایسا کوئی آرٹسٹ نہیں ملا جو پروگرام کی نظامت کر سکے۔ پروگرام اینکر کرنے کے لیے باہر سے کسی کو بلایا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کس طرح صلاحیتیں معدوم ہو چکی ہیں اور اچھے لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ریڈیو کا ظاہری مطلب ہوتا ہے اناؤنسر، ڈائریکٹر یا پروڈیوسر سے ریڈیو پروگرام کی شناخت نہیں ہوتی۔ شفیق صاحب، مریم کاظمی، طاہرہ آپا... ایک طویل فہرست ہے جو ریڈیو کے معروف نام ہیں لیکن 50 سالہ جشن میں کسی کو یاد نہیں کیا گیا۔ افسران نے آپس میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور تعریفیں بانٹ لیں۔‘‘

انس فیضی کے بیان سے ظاہر ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کا نیشنل چینل بند ہونا صرف کوسٹ کٹنگ نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی نے اس کو بچانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ انٹرنیٹ اور ایف ایم کے زمانے میں اے آئی آر کا نیشنل چینل بے توجہی کا شکار رہا اور اب جب کہ یہ بند ہو چکا ہے تو سامعین کی ایک بڑی تعداد مایوس ہے۔ 59 سالہ یونس کہتے ہیں کہ ’’ریڈیو سننے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن پروگرام اچھے ہونے چاہئیں۔ اے آئی آر کو جب تک اچھی آوازیں میسر تھیں اور پروگرام کے معیار پر دھیان دیا جاتا تھا، تب تک لوگوں نے اسے اپنے دلوں میں بسا کر رکھا۔ آج بھی لوگ ’آواز دے کہاں ہے؟‘ اور ’آپ کی فرمائش‘ جیسے پروگراموں کو یاد کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں نہ ہی اس کے پروگرام کے معیار پر دھیان دیا گیا اور نہ ہی باصلاحیت آر جے رکھے گئے۔‘‘ انھوں نے کوسٹ کٹنگ کے نام پر اے آئی آر نیشنل کو بند کرنے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو دوسرے ریڈیو چینلز سے مقابلہ کرنا چاہیے تھا، اس طرح گھٹنے ٹیکنا مناسب نہیں تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور ایف ایم کے دور میں آل انڈیا ریڈیو کا نیشنل چینل کسی پسماندہ چینل کی طرح محسوس ہو رہا تھا، لیکن زیادہ دن نہیں ہوئے جب لوگ اس کے دلدادہ ہوا کرتے تھے۔ 1988 میں اسے ہندی، اردو اور انگریزی میں لانچ کیا گیا تھا اور شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک اسے براڈ کاسٹ کیا جاتا تھا۔ رات کے وقت کام کرنے والے لوگ یا پھر پڑھائی کرنے والے اسٹوڈنٹس کے لیے یہ ایک بہترین سہارا ہوا کرتا تھا۔ اس نیشنل ریڈیو چینل کے ذریعہ تفریحی پروگرام کے ساتھ ساتھ معلومات پر مبنی کئی ایسے پروگرام آتے تھے جس کا مقابلہ موجودہ دور کے ریڈیو چینلز بھی نہیں کر سکتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Jan 2019, 7:10 PM