چیف جسٹس کا دفتر بھی ’حق اطلاعات قانون‘ کے تحت جواب دہ: سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا دفتر ایک عوامی اتھارٹی ہے لہذا یہ آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں رہے گا۔ تاہم، دفتر کی رازداری کو برقرار رکھا جائے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ اب چیف جسٹس آف انڈیا کا دفتر بھی آر ٹی آئی (حق اطلاعات قانون) کے دائرے میں ہوگا اور کوئی بھی عام شہری وہاں سے اطلاع کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔ پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے بدھ کے روز یہ اہم فیصلہ سنایا۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اس حوالہ سے شرائط بھی عائد کی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا دفتر ایک عوامی اتھارٹی ہے لہذا یہ آر ٹی آئی قانون کے دائرے میں رہے گا۔ تاہم، دفتر کی رازداری کو برقرار رکھا جائے گا۔

چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس جے کھنہ، جسٹس گپتا، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس رمنا پر مشتمل بنچ نے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 124 کے تحت لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے 2010 میں سنائے گئے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔


سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب کالجیم کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ فیصلے کو پڑھتے ہوئے جسٹس رمنا نے کہا کہ آر ٹی آئی کو جاسوسی کے ذرائع کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواست پر سنایا ہے۔ اس سال اپریل ماہ میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں اپنا حکم محفوظ رکھا تھا۔


یہ معاملہ سپریم کورٹ تک کیسے پہنچا؟

تقریباً ایک دہائی قبل دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ چیف جسٹس کے دفتر اور سپریم کورٹ کو اپنی معلومات آر ٹی آئی کے تحت اسی طرح فراہم کرنا چاہیے جس طرح ملک میں دوسرے سرکاری حکام کرتے ہیں۔ سال 2007 میں سماجی کارکن سبھاش چندر اگروال نے ججوں کے اثاثوں کو جاننے کے لئے آر ٹی آئی دائر کی تھی۔

جب اس معاملے سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا تو معاملہ مرکزی انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی) تک پہنچا۔ سی آئی سی نے معلومات طلب کی۔ اس کے بعد اس معاملے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ وہاں بھی سی آئی سی کے حکم کو برقرار رکھا گیا۔


بعد ازاں، سال 2010 میں ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ کے جنرل سکریٹری اور سپریم کورٹ کے مرکزی پبلک انفارمیشن آفیسر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */