مردم شماری میں او بی سی ذاتوں کو شمار نہیں کیا جائے گا، سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت حلف نامہ

مرکزی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر حلف نامے میں کہا ہے کہ یہ بہت مشکل کام ہے، ایسے میں جو سیاسی جماعتیں اس کا مطالبہ کر رہی تھیں، ان کو مایوسی ہاتھ لگی ہے

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ملک میں مردم شماری کے حوالے سے طویل بحث کے دوران مرکزی حکومت نے اس معاملے پر اپنا موقف واضح کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ مردم شماری میں او بی سی ذاتوں کی گنتی ایک طویل اور مشکل کام ہے۔

ایسی صورتحال میں 2021 کی مردم شماری میں ذاتوں کی گنتی نہیں کیا جا سکے گی۔ حکومت کا یہ موقف ان تمام سیاسی جماعتوں، تنظیموں کے لیے ایک دھچکا ہے جو ذاتوں کی مردم شماری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے پی ایم مودی سے ملاقات کر کے ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا۔


دراصل حکومت مہاراشٹر کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مرکزی حکومت سے او بی سی کمیونٹی کا ڈیٹا طلب کیا گیا تھا۔ مہاراشٹرا میں یہ ڈیٹا ضلع پریشد، ضلع پنچایت انتخابات میں او بی سی کمیونٹی کے لیے 27 فیصد ریزرویشن کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

اس عرضی کے حوالہ سے مرکزی حکومت نے اپنا جواب داخل کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ 2011 کی مردم شماری کے پیش نظر حکومت کے پاس ہر ذات کی گنتی کے بارے میں کوئی ٹھوس ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ سال 2011 میں کی جانے والی سماجی معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری غلطیوں سے بھری ہوئی ہے۔


مرکزی حکومت نے واضح کیا ہے کہ سابقہ مردم شماری کا ڈیٹا کسی سرکاری استعمال کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کیا گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں ریاستی حکومتیں اسے ذات سے متعلق معاملے میں استعمال نہیں کر سکتیں۔ مرکز کا کہنا ہے کہ اس ڈیٹا میں غلطیاں ہیں، نیز، کئی ذاتوں کا ایک ہی نام کئی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

اپنے جواب میں، مرکز نے 2021 کی مردم شماری میں ذات کے حصے کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہوگا، جس کی وجہ سے ڈیٹا میں گڑبڑی ہو سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔