مودی حکومت میں وزارت کپڑا کی جادوگری، بغیر فروخت بڑھے ’این ٹی سی ایل‘ کا خسارہ ہو گیا کم!

زبردست خسارہ میں چل رہی این ٹی سی ایل کا خسارہ اچانک کم ہو گیا ہے۔ اس کمپنی میں کئی طرح کی مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کی طرف سی وی سی اشارہ کرتا رہا ہے، لیکن حکومت اس سے آنکھیں پھیرے ہوئے ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ملک کی دوسری سرکاری کمپنیوں کی طرح ہی نیشنل ٹیکسٹائل کارپوریشن لمیٹڈ (این ٹی سی ایل) بھی کافی وقت سے بیمار یونٹ ہے۔ لیکن مودی حکومت اس بیمار کمپنی کا علاج کرنے کی جگہ اس کی مرہم پٹی کرنے میں لگی ہے۔ حکومت کمپنی کے نفع نقصان والے اکاؤنٹس میں ہیر پھیر کر ثابت کرنے میں لگی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔

آخر ایسا کیسے ہو گیا؟ حکومت نے جس طرح جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کی ہے، اسی طرح اس کمپنی کے نفع نقصان کا بھی حساب لگایا ہے۔ دھیان رہے کہ جن کمپنیوں میں مشینیں استعمال ہوتی ہیں، ان کے نفع نقصان کا حساب لگاتے وقت مشینوں کی کم ہوتی قیمت کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ لیکن اسمرتی ایرانی کی دیکھ ریکھ والی وزارت کپڑا نے گزشتہ سال کمپنی کی مشینوں کی صلاحیت 10سال سے بڑھا کر 20 سال کر دیا۔ اس طرح مشینوں کی گھٹتی قیمت سے ہونے والا نقصان، فائدہ میں بدل دیا گیا۔


اسے سمجھنے کے لیے این ٹی سی ایل کی 15-2014 سے لے کر 19-2018 تک کی بیلنس شیٹ دیکھیں تو سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ 15-2014 میں کمپنی کو 246.3 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، 16-2015 میں اسے 305 کروڑ کا نقصان ہوا، 17-2016 میں خسارہ 306 کروڑ پہنچ گیا، 18-2017 میں یہ نمبر 317 کروڑ روپے تک پہنچ گیا، لیکن 19-2018 میں اچانک این ٹی سی ایل کا خسارہ کم ہو کر 234 کروڑ پر آ گیا اور اس مالی سال میں اگست تک یہ صرف 109 کروڑ ہے۔

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 19-2018 میں کمپنی کا خسارہ کم ہوا ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ جیسا کہ اس رپورٹ میں پہلے بتایا گیا ہے کہ پرافٹ-لاس (نفع نقصان) اسٹیٹمنٹ میں مشینوں کی صلاحیت 10 سال مان کر ان کی گھٹتی قیمت کو بھی شامل کیا گیا تھا، لیکن 2018 کے بعد سے این ٹی سی ایل نے فنانشیل آڈٹ بنانے میں وہ طریقہ اختیار کیا جس میں مشینوں کی صلاحیت کو 20 سال مان لی گئی۔ اس سے نفع و نقصان کے اکاؤنٹ میں خسارے کی رقم اچانک کم ہو گئی، جب کہ اسمرتی ایرانی کی قیادت والی وزارت کے ماتحت اس کمپنی کا خسارہ لگاتار بڑھتا رہا ہے۔


15-2014 سے کمپنی نے اب تک تقریباً 1500 کروڑ کا خسارہ درج کیا ہے۔ کمپنی کے ملازم اور ٹریڈ یونین اس کے لیے کپڑا وزارت کو قصوروار ٹھہراتے ہیں کہ وزارت نے اسے مضبوط بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ این ٹی سی ایل کا قیام 1968 میں اس ہدف کے ساتھ ہوا تھا کہ وہ نجی ملکیت والی بیمار کپڑا کمپنیوں کو اپنے ماتحت لے کر اور مالیاتی اصلاح و تجدید کے ذریعہ انھیں فائدہ والی کمپنیاں بنائے گی۔ اس طرح این ٹی سی ایل نے تقریباً 124 ملوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ فی الحال این ٹی سی ایل 98 ملوں کی مالک ہے جس میں سے صرف 23 ملیں ہی چل رہی ہیں۔ ان 23 ملوں میں کاٹ اور پالیسٹر یارن کے ساتھ خام کپڑا بھی تیار ہوتا ہے۔ یارن کے پروڈکشن کے لیے فائبر خریدا جاتا ہے جس کے لیے سنٹرل ویجلنس کمیشن کے ضابطوں کے مطابق ٹنڈر ہونا ضروری ہے۔ لیکن یارن کے گھٹیا معیار کی شکایتوں اور قوانین کے باوجود اس خرید کے لیے ٹنڈر نہیں ہوتا۔


سنٹرل ویجلنس افسر نے 2017 میں پالیسٹر فائبر کی خرید میں گڑبڑیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، لیکن معاملہ وہیں دب کر رہ گیا۔ اس کے بعد 2018 میں پھر یہی بات سامنے آئی تھی۔ سی وی سی (سنٹرل ویجلنس کمیشن) کو ملی شکایتوں میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 300 کروڑ روپے کا پالیسٹر فائبر انڈوراما سنتھیٹکس نام کی کمپنی سے خریدا جا رہا ہے۔ انڈوراما کمپنی انڈونیشیا میں پیدا ہوئے کاروباری پرکاش لوہیا کی ہے۔ پرکاش لوہیا کی بیوی سیما متل اسٹیل بیرن لکشمی متل کی بہن ہیں۔ انڈوراما کو این ٹی سی کا ٹھیکا بغیر کسی ٹنڈر عمل کے گزشتہ 10 سال سے ملتا رہا ہے، لیکن اس پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ انڈوراما سنگل اور اَن اٹیچڈ فائبر کے بدلے سی گریڈ کا فائبر این ٹی سی کو سپلائی کر رہی ہے۔ اس گریڈ کا فائبر استعمال کے دوران ٹوٹتا ہے اور کافی برباد ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے فائبر سے بنے پالیسٹر کا معیار بھی خراب ہوتا ہے اور بازار میں اس کی طلب کم ہو جاتی ہے۔

این ٹی سی ایل میں معاملہ صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ اعلیٰ انتظامیہ کی سطح پر بھی کافی خامیاں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بجلی سپلائی کے ضابطوں پر عمل نہ کرنے پر تمل ناڈو میں کوئمبٹور واقع پاینیر مل پر بجلی بورڈ نے ایک کروڑ کا جرمانہ لگا دیا۔ حالانکہ بجلی بورڈ نے 6 مہینے پہلے ہی این ٹی سی کو نوٹس بھیج دیا تھا۔ بجلی بورڈ کا قانون ہے کہ مل میں ہارمونکس سسٹم لگا ہونا چاہیے تاکہ جتنی بجلی مل میں آتی ہے، اور اگر استعمال نہیں ہوتی ہے تو وہ واپس سپلائی لائن میں نہ جائے، کیونکہ اس سے پورے علاقے میں اندھیرا چھا سکتا ہے، لیکن این ٹی سی ایل انتظامیہ نے اس پر دھیان ہی نہیں دیا۔


اس کے علاوہ این ٹی سی ایل کی کئی ملوں میں آگ سے بچاؤ کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے، جس کے سبب ملوں پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔