ڈوسو انتخابات: ووٹنگ کے دوران این ایس یو آئی کا ووٹ چوری کا الزام، انتظامیہ کو سخت وارننگ

ڈوسو انتخابات میں ووٹنگ کے دوران این ایس یو آئی نے ووٹ چوری اور انتظامیہ کی جانبداری پر سخت اعتراض کیا ہے۔ تنظیم نے دہلی یونیورسٹی کو آزاد و شفاف انتخابات کرانے کی وارننگ دی

<div class="paragraphs"><p>ورون چودھری، صدر این ایس یو آئی /&nbsp;</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین (ڈوسو) انتخابات کے لیے آج صبح 8:30 بجے سے ووٹنگ کا عمل جاری ہے۔ کیمپس اور کالجوں کے باہر طلبہ میں جوش و خروش نظر آ رہا ہے۔ اس دوران نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے دہلی یونیورسٹی انتظامیہ پر ووٹ چوری کی سازش کا سنگین الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر کہیں بھی جعلی ووٹنگ سامنے آئی تو اس کے ذمہ داروں کو سخت نتائج بھگتنے ہوں گے۔

این ایس یو آئی کے قومی صدر ورون چودھری نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہمیں کئی رپورٹس ملی ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستہ کچھ حلقے اساتذہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ غیر حاضر طلبہ کے نام سے ووٹ ڈلوائے جائیں۔ یہ دہلی یونیورسٹی کے جمہوری نظام پر براہِ راست حملہ ہے۔ میں انتظامیہ کو انتباہ دیتا ہوں کہ کسی بھی کالج میں اگر اس طرح کی شکایت سامنے آئی تو ہم اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘‘


ورون چودھری نے مزید کہا کہ طلبہ برادری کی جانب سے این ایس یو آئی کو مل رہی وسیع حمایت مخالف خیمے کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ان کے مطابق یہی خوف آر ایس ایس-بی جے پی حلقے کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کے لیے ووٹ چوری جیسے ہتھکنڈے اپنائیں۔ پریس ریلیز میں تنظیم نے یہ بھی واضح کیا کہ این ایس یو آئی طلبہ کی آواز بلند کرنے اور دہلی یونیورسٹی کے جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔

ادھر ووٹنگ مراکز پر پولنگ کا عمل پرامن طریقے سے جاری ہے۔ ساؤتھ کیمپس کے رام لال کالج سمیت کئی مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔ تقریباً 600 سے زیادہ اہلکاروں کو مختلف کالجوں میں تعینات کیا گیا تاکہ انتخابی عمل پرامن اور شفاف ماحول میں مکمل ہو سکے۔

اس بار ڈوسو کے چار اہم عہدوں- صدر، نائب صدر، سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری کے لیے کُل 21 امیدوار میدان میں ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران اسٹوڈنٹس ویلفیئر، کیمپس انفراسٹرکچر اور تعلیمی اصلاحات جیسے مسائل امیدواروں کے منشور اور تقاریر میں نمایاں رہے۔


ڈوسو انتخابات کو دہلی یونیورسٹی تک محدود نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ قومی سیاست کے لیے ایک اہم نرسری تصور کیے جاتے ہیں۔ ملک کے کئی بڑے رہنما اسی پلیٹ فارم سے سیاست میں متعارف ہوئے۔ اس سال تقریباً 2.75 لاکھ طلبہ نے ووٹ ڈالنے کے لیے اندراج کرایا ہے، جن میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے طلبہ شامل ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔