این پی آر بھی کسی طور مسلمانوں کے خلاف نہیں: مختار عباس نقوی

مختار عباس نقوی نےکہا کہ ہمارے لئے، ہندوستان کی مٹی ہمارا ایمان ہے، اس مٹی میں پیدا ہوا ہر شخص یہیں رہے گا، کسی کے بھی سماجی، مذہبی، دستوری، شہری حق پر کوئی سوال یا خطرہ نہ ہے، نہ ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: اس تمہید کے ساتھ کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں موجودہ حکومت بلا تفریق مذہب و ملت ہر ضرورت مند کی آنکھوں میں خوشی اور زندگی میں خوشحالی لانے کے عزم کے ساتھ کام کر رہی ہے، اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور اب قومی آبادی کا رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کا سرکاری فیصلہ کسی بھی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نہیں۔

انہوں نے اپنے ایک آرٹیکل میں وزیر اعظم نریندر مودی کی اس وضاحت کی تائید کی ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ، کسی کی شہریت لینے کے لئے نہیں بلکہ شہریت دینے کے لئے ہے اور این آر سی کا 1951 سے تعلق آسام کے علاوہ کہیں اور سے نہیں۔


مختار عباس نقوی نے الزام لگایا کہ سٹیزن شپ ترمیم ایکٹ، این آر سی اور اب قومی آبادی کا رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کے فیصلے کے حوالے سے سماج کے ایک طبقے میں ”خوف اور شک کا بھوت“ کھڑا کیا جارہا ہے۔ ”جھوٹ کے جھاڑ سے سچ کے پہاڑ“ کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مرکزی وزیر نے مزید کہا ہے کہ سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ کی تاریخی اہمیت ہے، 1955 میں ہندوستان کے وزیر داخلہ پنڈت گووند بلبھ پنت اور پاکستان کے وزیر داخلہ میجر جنرل اسکندر مرزا کے مابین معاہدہ ہوا، اس سمجھوتے کے تحت بھارت سرکار کی ذمے داری ہے کہ پاکستان میں موجود غیر مسلم مذہبی مقامات کی حفاظت کا خیال رکھنا ہے۔ نیز غیر مسلمانوں کے مذہببی۔سماجی سروکار کی بھی فکر کرنی ہے۔


این آر سی، کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ یہ عمل 1951 سے آسام میں شروع ہوا، پھر 1975 میں اسے آگے بڑھانے کی تحریک اور مانگ ہوئی۔ پھر 2013 میں، سپریم کورٹ نے اسے آگے بڑھانے کا حکم دیا۔ یہ عمل ابھی بھی جاری ہے۔ لیکن صرف آسام تک محدود ہے۔ ایک فہرست 31 اگست 2019 کو جاری ہوئی جو نام نہیں آئے سرکار این آرسی سیوا کیندروں، ٹربیونلوں میں قانونی طور پر ان کو مدد فر اہم کر رہی ہے۔ 1951 سے آسام میں جاری این آرسی کا عمل ابھی بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

جہاں تک سوال ہے ملک کے دیگر حصوں میں این آر سی کو متعارف کرانے کا، تو اس سے متعلق انہوں نے کہا کہ کسی بھی سطح پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی دوسری ریاستوں میں این آر سی پر عمل کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جو ہنگامہ اور سیاسی ڈرامہ عروج پر ہے اس کے پس منظر میں من گھڑت اور جھوٹ سے بھرپور کہانی بنا کر ایک خاص سماج کے کندھے پر بندوق رکھ کر "سیاست کی سانپ سیڑھی" کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دراصل موضوعات کی کنگالی نے کچھ سیاسی جماعتوں کو فروعی معاملات کا موالی" بنا دیا ہے۔ اور اب مردم شماری کو لے کر تشویش اور الجھن کا جال بچھایا جارہا ہے اور کچھ سیاسی پارٹیاں لوگوں کو اپنے ’’چالاکی کے چکرویو‘‘ میں پھنسانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مردم شماری یا این پی آر لگاتار جاری رہنے والا عمل ہے۔


انہوں نے کہا کہ مردم شماری 1951,1961,1971,1981,1991,2001,2011 میں ہوئی۔ اب اس حوالے سے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام شروع ہوگیا ہے۔ ’’ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت سے ہارے لوگ ”غنڈہ تنتر“ سے جمہوریت کا اغوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔

مختار عباس نقوی نے اس عزم کے ساتھ اپنی بات مکمل کی کہ ’’ ہمارے لئے، ہندوستان کی مٹی ہمارا ایمان ہے، اس مٹی میں پیدا ہوا ہر شخص یہیں رہے گا، کسی کے بھی سماجی، مذہبی، دستوری، شہری حق پر کوئی سوال یا خطرہ نہ ہے، نہ ہوگا۔ یہی سچاّئی سے بھرپور حقیقت ہے، باقی سب تشویش سے بھرا افسانہ ہے۔ آئیے ہم سب متحد ہوکرخوف و ہراس اور شک کے بھوت کا صفایا کریں‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔