اگر اندرونی معاملہ تھا تو پریس کانفرنس کیوں کی ؟

چار ججوں کے بیان کے بعد سپریم کورٹ میں جو بحران پیدا ہوا ہے اب اس پر ان چار ججوں میں سے دو کے جوبیان آئے ہیں اس نے نئے سوال کھڑے کر دئے ہیں

چار سینئر جج پریس کانفرنس کرتے ہوئے(فائل تصویر)
چار سینئر جج پریس کانفرنس کرتے ہوئے(فائل تصویر)
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے پوری دنیا کے سامنے آ کر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے کام کاج پر سوال اٹھاتے ہوئے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی اور اب ان چار میں سے دو ججوں کا کہنا ہے کہ یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے اور اس میں باہر کی کسی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ اب جسٹس کورین جوزف کا کہنا ہے کہ ’’کسی باہری مداخلت کی ضرورت نہیں ہے ‘‘۔ ادھر جسٹس رنجن گوگوئی کا کہنا ہے کہ ’’ کوئی بحران نہیں ہے ‘‘۔ اب جسٹس جوزف کا یہ کہنا کہ کسی باہری مداخلت کی ضرورت نہیں اور یہ اندرونی معاملہ ہے جبکہ جب ان چاروں ججوں نے پریس کانفرنس کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا تو اس میں یہ کہا تھا کہ ’’ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا‘‘۔ یہ انتہائی قدم اس لئے بھی تھا کیونکہ یہ پریس کانفرنس اس وقت کی تھی جس وقت کورٹ چل رہا تھا جبکہ یہ کورٹ کی کارروائی کا وقت ختم ہونے کے بعدبھی کی جا سکتی تھی ۔ معاملہ اتنا سنگین نوعیت کا تھا تو پھر اب یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ اندرونی معاملہ ہے اور کوئی بحران نہیں ہے ۔ پوری دنیا میں ملک کی ساکھ داؤ پر لگا دی ۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا اور اب یہ کہا جائے کہ کوئی بحران نہیں تھا۔ واضح رہے اس سارے معاملے پر حکومت کا موقف پہلے دن سے یہ ہی رہا ہے کہ یہ عدلیہ کا اندرونی معاملہ ہے جبکہ ہفتہ کے روز وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری نیپیندر مشرا کی چیف جسٹس دیپک مشرا کے گھر کے باہر کی تصویر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معاملہ اندرونی نہیں ہے اور حکومت حرکت میں ہے۔واضح رہے نیپیندر مشرا کی کل وہ تصویر سامنے آئی تھی جس میں ان کو ان کو چیف جسٹس دیپک مشرا کے گھر کے باہر کار میں بیٹھے انتظار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دیپک مشرا نے ان سے ملاقات نہیں کی اور نیپیندر مشرا کے تعلق سے یہ خبر ہے کہ وہ ذاتی حیثیت سے ملنے کے لئے گئے تھے مگر ملاقات نہیں ہوئی ۔

جسٹس جوزف اور جسٹس گوگوئی کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان چار ججوں نے جو معاملے اٹھائے تھےچاہے وہ جج لویا کی موت سے جڑی پی آئی ایل کا ہو چاہے وہ سپریم کورٹ کی کارروائی کے ضابطوں کا معاملہ ہو ان معاملوں کی اہمیت کچھ نہیں تھی بس ان معاملوں کو استعمال کیاگیا۔ اگر ان چار ججوں نے یہ ہی رخ اختیار کیا کہ ’’کوئی بحران نہیں ہے ‘‘ تو انہوں نے نہ صرف انصاف کے مندر سپریم کورٹ کی ساکھ کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے بلکہ انہوں نے عوام کے جزبات کو بھی مجروح کیا ہے ۔

چار سینئر ججوں نے جن خدشات اور تشویشات کا اظہار کیا ہے اس نے عوام میں بڑے پیمانے پر بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ جس عدلیہ سے عوام انصاف کی امید رکھتی ہے اگر اسی عدلیہ میں انصاف کو لے کر سوال اٹھائے جا رہے ہوں تو پھر یہ بے چینی لازمی ہے ۔ ان چار ججوں نے ایک خط میں یہ سوال اٹھائے تھے کہ چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا اپنی مرضی کے ججوں کو سنوائی کے لئے کیس دے رہے ہیں اور سینئر ججوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ۔چیف جسٹس آف انڈیا (سی جےآئی)کے بعد چار سینئر جج اس بات سے ناراض ہیں کہ کیس ان ججوں کوسنوائی کے لئے دئے گئے جو ان چاروں ججوں سے کافی جونیئر ہیں۔سینئر جج اپنی ناراضگی کو اس وقت عوام کے سامنے لائے ہیں جب یہ خیال بھی گشت کر رہا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا نے کچھ معاملوں میں وہ پوزیشن لی ہے جو مودی حکومت کے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور کچھ معاملوں میں حکومت کو تھوڑی راحت پہنچا سکتی ہے جبکہ اس تعلق سے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Jan 2018, 1:59 PM