شاہین باغ :حکومت کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے

آج اس تاریخی مظاہرہ کا پورا ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی جہاں سماج کے ایک بڑے طبقہ کے ذہن میں اس قانون کو لے کر خدشات ویسے کے ویسے ہی ہیں وہیں حکومت کے رویہ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

تصویر آئی اے این ایس 
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز تجزیہ

ایک سال پہلے آج ہی کےدن شاہین باغ کی ایک سڑک پرخواتین سی اے اے یعنی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بیٹھ گئی تھیں ۔ان کا کہنا تھا کہ اس قانون سے ملک کے ایک بڑےطبقہ کی شہریت پر سوال کھڑے کئے جائیں گے۔ حکومت اس بات پربضد تھی اور ہے کہ اس قانون کونہ توواپس لیا جائے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جائے گا۔ بہرحال خواتین جن میں اقلیتی طبقہ کی اکثریت تھی وہ پورے حب الوطنی کے جزبہ کے ساتھ سڑک کے ایک کنارے پر احتجاج کرنے بیٹھ گئیں لیکن دیکھتےہی دیکھتے شاہین باغ کے اس مظاہرہ نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی۔

حکومت کوشروع میں اندازہ نہیں تھاکہ یہ احتجاج اتنی بڑی شکل اختیار کر لےگا لیکن جب اس طرح کےشاہین باغ کئی شہروں میں کئی مقامات پر ہونے لگ گئے اور عالمی میڈیا میں اس کا تزکرہ ہونے لگا تو پھر پہلے اس مظاہرہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والی خواتین چند سو روپے لے کر مظاہرہ میں شرکت کر رہی ہیں، مفت بریانی مل رہی ہےاس لئے وہاں جا رہی ہیں۔حکمراں جماعت کےجب ان بیانات سے بھی شاہین باغ کے اس مظاہرہ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور بلکہ خواتین کی تعداد گھٹنے کی بجائے بڑھنے لگی تو ان کو ڈرانے کی بھی کوشش کی گئی۔بہرحال اس مظاہرہ کو ناکام بنانے کے تمام ہتھ کنڈےآزمائےگئے لیکن مظاہرین سے نہ تو کوئی بات کی گئی اور نہ ہی ان کی تسلی کےلئے کوئی بیان سامنے آیا۔


اس متنازعہ قانون کی وجہ سے وہ خواتین سڑکوں پر آ گئیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ گھر کی دہلیز پار نہیں کرتیں اورپھر اس سماج کے دو طبقوں میں اختلافات بڑھے جس کے نتیجے میں دہلی کےایک علاقہ میں فرقہ وارانہ فسادات سامنے آئے۔ کووڈ کی وجہ سے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد شاہین باغ کا مظاہرہ بغیرکچھ حاصل کئے ختم ہوگیا ۔آج اس تاریخی مظاہرہ کا پورا ایک سال مکمل ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی جہاں سماج کے ایک بڑے طبقہ کے ذہن میں اس قانون کو لے کر خدشات ویسے کے ویسے ہی ہیں وہیں حکومت کے رویہ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور مغربی بنگال کے انتخاباتکی تیاریوں میں اس قانون کا جن پھر بوتل سے باہر آتا نظر آ رہاہے۔

حکومت کو سماج کے اس بڑے طبقہ کے خدشات دور کرنے چائیں اور قانون پر از سر نو غور کرنا چاہئے۔حکومتوں کی یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سماج کے اگر کسی طبقہ میں بھی اگر کسی چیز سےکوئی پریشانی ہےتو اس پریشانی کاحل نکالے۔ شاہین باغ کی گھریلوخواتین کوجو عالمی شہرت ملی ہےاور اس کی وجہ سے ملک کی جو ساکھ متاثر ہوئی اس کی ملک کو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ملک کی پہچان ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی والے ملک کی ہونی چاہئے نہ کہ ایسی جیسی گزشتہ کچھ سالوں میں دیکھنے کو ملی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔