کوئی بچا نہیں پایا زاہد بھائی کو موت سے!

تریپورہ موب لنچنگ میں زندہ بچ گئے خورشید نےکہا ’3 دن، 3 گھنٹے، 22-22 پولس اہلکار اور ہمارا فون، سب مل کر بھی زاہد بھائی کو موت سے نہیں بچاپائے۔‘‘

تصویر قومی آواز/آس محمد
تصویر قومی آواز/آس محمد
user

آس محمد کیف

کھیڑی فیروزآباد (ککرولی) :’’بھیڑ خونی ہو گئی تھی۔ ہم سیدھائی موہن پور تھانہ کے اندر تھے۔ تھانہ کے اندر 20 سے زائد پولس والے تھے اور وہ سبھی وردی میں۔ سینکڑوں افراد ایک ساتھ اندر گھس آئے، ان کے ہاتھوں میں لاٹھی، ڈنڈے، لوہے کی راڈ اور دھار دار ہتھیار تھے۔ پولس نے ہمیں ایک فولڈنگ پلنگ کے نیچے چھپا دیا، پولس بھیڑ کے سامنے بے بس نظر آ رہی تھی، جیسے ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے گئے ہوں۔ وہاں ’’ بچہ چورکو کاٹ ڈالو‘‘ جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ زاہد بھائی نے فولڈنگ پلنگ سے باہر جھانکنے کے لئے جیسے ہی سر نکالا، اچانک کوئی لوہے کی چیز زور سے ان کے سپر پر مار دی گئی جس سے ان کا بھیجا باہر نکل کر آیا۔ ہم تین لوگ تھے، بھیڑ کو یہ معلوم تھا کہ ہم تھانہ میں چھپے ہوئے ہیں۔

دربھنگہ بہار کے ہمارے تیسرے ساتھی گلزار بھائی نے زاہد بھائی کا نکلا ہوابھیجہ اٹھا کر کپڑے سے باندھ دیا۔ میں نے منظر دیکھ کر اپنے سر پر دونوں ہاتھ رکھ لئے، لوگ لاٹھی ڈنڈوں سے ہماری پٹائی کر رہے تھے کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ تریپورہ پولس کے کمانڈو ہمارے لئے فرشتہ بن کر نمودار ہوئے تھے۔ فائرنگ کے سبب بھیڑ منتشر ہو گئی تھی، لیکن زاہد بھائی کی جان جا چکی تھی۔ گلزار بھائی بھی موت وزندگی کی جنگ لڑ رہے تھے، میری حالت بھی نازک تھی۔

پولس کمانڈو نے فوری طور پر ہمیں گاڑی میں بیٹھایا، چار کمانڈو آگے اور چار پیچھے فائرنگ کرتے ہوئے ہمیں اسپتال لے کر پہنچے۔ دو گھنٹے تک ہم سے پوچھ گچھ کرنے والی مقامی پولس کہاں گئی ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا۔ ‘‘ اتنا کہنے کے بعد خورشید کی زبان کانپنے لگتی ہے اور وہ خاموش ہو جاتا ہے۔

25 سالہ خورشید وہی نوجوان ہے جو تریپورہ میں پیش آئے موب لنچنگ کے واقعہ میں زندہ بچ گیا، تریپورہ میں 24 گھنٹے کے دوران موب لنچنگ کے دو واقعات رونما ہوئے اور ان میں 3 افراد کی موت واقع ہوئی تھی، یہ واقعہ 28 جون کو پیش آیا تھا اور کئی افرادزخمی بھی ہو گئے تھے۔ خورشیدبھی پھیری لگا کر کپڑے بیچنے کا کام کرتا تھا۔ سیدھائی موہن پور میں 28 جون کو وہ دربھنگہ کے گلزار اور مظفرنگر کے زاہد کے ساتھ کپڑا اور الیکٹرانک سامان بیچنے گیا تھا۔ سیدھائی موہن پور میں بھیڑ نے انہیں بچہ چور بتاکر پولس کے حوالہ کر دیا۔ اس کے دو گھنٹے کے بعد بھیڑ بےقابو ہو گئی اور تھانہ میں گھس کر ان پر حملہ کر دیا، حملہ میں زاہد کی موت ہو گئی اور گلزار شدید طور پر زخمی ہوا۔ خورشید مظفرنگر ضلع کے ککرولی تھانہ علاقہ کے گاؤں کھیڑی فیروزآباد کا رہائشی ہے۔ اس حادثہ کے بعد وہ اپنے گھر لوٹ آیا ہے اور اس کے دونوں ہاتھوں پر پلاسٹر چڑھا ہواہے، بدن ابھی تک سوجا ہوا ہے اور چہرے پر چوٹ کے نشانات ہیں۔

خورشید اس دن کے واقعہ کو یاد کرتا ہے تو کانپ جاتا ہے، وہ بتاتا ہے کہ کنیا کماری میں کپڑے بیچ رہا تھا لیکن کام اچھا نہیں چل رہا تھا۔ کسی ساتھی نے بتایا کہ اگرتلہ میں دو مہینے اچھی بکری ہوتی ہے، وہ واقعہ سے تین دن قبل اگرتلہ پہنچ گئے ۔ ایک مقامی گاڑی کرایہ پر لے کر اگرتلہ سے 25 کلومیٹر دور ایک گاؤں سیدھائی موہن پور پہنچے۔ خورشید کے الفاظ میں ’’ میرے ساتھ گلزار بھائی اور زاہد بھائی تھے۔ ہم پہلے ہی گھر میں کوکر دکھا رہے تھے کہ ایک عورت آکر کہنے لگی کہ یہاں کا ماحول دو دن سے گرم ہے، بچہ چوری کی افواہ پھیل رہی ہے۔ میں نے کہا بہن ہم کام نہیں کریں گے تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘

اس کے بعد کچھ لوگ آ گئے جنہوں نے ہماری آئی ڈی مانگی۔ ہم نے اپنی آئی ڈی دکھا دی۔ اس کے بعد وہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے اور فون پر بات کر کے کسی کو بلانے لگے۔ وہ بنگلہ زبان میں باتیں کر رہے تھے اس لئے ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ پا رہا تھا۔ ان لوگوں نے ہمیں واٹس ایپ کا ایک میسج دکھایا جس میں بچہ چوری اور گردہ نکال کر بیچنے والوں کا ذکر تھا۔ انہیں زاہد بھائی پر بچہ چور ہونے کا شک ہو رہا تھا۔

اس کے بعد وہ ہمیں گھر کے باہر لے کر آ گئے ، ہماری سانسیں اندر کی اندراور باہر کی باہر رہ گئیں کیونکہ سینکڑوں کی بھیڑ اچانک کہاں سے آگئی کچھ پتہ نہیں۔ یہ سب پہاڑی لوگ تھے، ان میں سے کچھ ہمیں تھانہ لے گئے اور اس وقت تک 8 بج چکے تھے۔ کچھ لوگوں کوہمارے بنگلہ دیشی ہونے کا بھی شک ہو رہا تھا لیکن پولس نے آئی ڈی دیکھ کرہمارے ہندوستانی ہونے کی تصدیق کر دی۔

ہم تینوں تھانہ میں تھے اور بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی، پھر بھی ہمیں تھانہ میں تحفظ کا احساس تھا۔ ہم نے ان لوگوں کو لاکھ سمجھایا کہ ہم بچہ نہیں چراتے، لیکن ہماری سننے کو کوئی تیار نہیں تھا ۔ اچانک تھانہ پر پتھراؤ ہونے لگا، پولس اہلکاروں پر دباؤ تھا کہ وہ ہمارا انکاؤنٹر کر دیں یا پھر بھیڑ کے سامنے سے ہٹ جائیں، صورت حال کے مدنظر ہم لوگوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اب اس بھیڑ سے بچنا مشکل ہے۔

ہم نے پولس اہلکاوں سے اصرار کیا کہ فائرنگ کر کے بھیڑ کو منتشر کردیجئے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ آخر کار قاتل بھیڑ نے ہمیں گھیر لیا، زاہد بھائی کی جان چلی گئی ، میں اور گلزار بھائی بچ گئے ۔

خورشید اب اپنے گھر پر موجود ہے ، اس سے ملنے والوں کا مجمع لگا ہوا ہے۔ تین مہینے پہلے ہی اس کی سگائی ہوئی ہے ۔ خور شید نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ پھیری لگانے کے لئے کبھی باہر نہیں جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔