کشمیر کی سڑکوں پر لاشیں نظر نہ آنے کا مطلب یہ نہیں کہ سب ٹھیک ہے: سری نگر میئر

میئر جنید عاضم کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے ایسے خاندان ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے بات نہیں کر پا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر سے متعلق لیے گئے مرکزی حکومت کے فیصلے سے وجودیت کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جموں و کشمیر میں 5 اگست کو جب مواصلاتی نظام کو پوری طرح سے ٹھپ کر دیا گیا تھا تو اس کے بعد سے وہاں کی کوئی بھی خبر ہندوستان کی کسی دوسری ریاست تک پہنچنا کافی دشوار ہو گیا۔ تقریباً ایک مہینہ ہونے کو ہے اور اب بھی یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ دفعہ 370 ختم کیے جانے کے بعد ریاست میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ حالانکہ مودی حکومت یہی کہہ رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن چند ایک ایسی خبریں بھی کسی حوالے سے موصول ہو رہی ہیں کہ حالات بہتر نہیں ہیں۔ تازہ بیان سری نگر کے میئر جنید عاضم مٹو کا آیا ہے جنھوں نے کہا ہے کہ بھلے ہی کشمیر کی سڑکوں پر لاشیں نظر نہ آ رہی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ جنید عاضم مٹو نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’’یہ امید کرنا کہ وہاں سب معمول پر آ جائے گا، حقیقت سے پرے ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ میئر جنید عاضم مٹو جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس (جے کے پی سی) کے ترجمان ہیں اور انھوں نے کشمیر میں مین اسٹریم لیڈروں کی گرفتاری سے متعلق مرکزی حکومت کی پالیسی کی تنقید بھی کی۔ سالوں سے کشمیر میں سیاسی کارکنان نے دہشت گردوں کے ذریعہ دی گئی دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کیا لیکن آج وہ شکار اور شکاری ہیں۔ واضح رہے کہ جے کے پی سی سربراہ سجاد لون بھی جموں و کشمیر پر مرکزی حکومت کے فیصلے کے سبب حراست میں لیے گئے لوگوں میں سے ایک ہیں۔


ایک میڈیا ذرائع کے مطابق جنید عاضم نے جموں و کشمیر کے موجودہ حالات سے متعلق اپنا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب بھی بہت سے ایسے خاندان ہیں جو اپنے پیارے رشتہ داروں سے بات نہیں کر پا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پر لیے گئے مرکزی حکومت کے فیصلے سے وجودیت پر خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ہم ہمیشہ تشدد کے خطرے کے ساتھ رہتے ہیں، یہ کوئی نیا منظرنامہ نہیں ہے۔ لیکن بنیادی حقوق کو واپس لینے کو صحیح ٹھہرانا کشمیر میں علیحدگی کی اصل بنیاد ہے۔‘‘

قابل غور ہے کہ مرکزی وزیر خارجہ ایس. جے شنکر نے جموں و کشمیر میں پابندی لگانے کی ضرورت کو درست ٹھہرایا تھا۔ گزشتہ ہفتے انھوں نے کہا تھا کہ ’’دہشت گردوں کو روکنے کے لیے اس طرح کے قدم اٹھانے ضروری تھے۔ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں کہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کے درمیان کمیونکیشن کو روک سکیں اور باقی لوگوں کے لیے انٹرنیٹ کھول دیں؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Sep 2019, 12:10 PM