بہار میں بی جے پی کی ’کنفیوژن پالیٹکس‘ سے مقابلے کے لیے نتیش-لالو نے کھیلا ماسٹر اسٹروک!

لالو پرساد نے ان دبی کچلی ذاتوں کو آواز دی اور سماجی انصاف کے علمبردار بنے، نتیش کمار بھی اسی راہ پر آگے بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>نتیش کمار اور لالو پرساد کی فائل تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

نتیش کمار اور لالو پرساد کی فائل تصویر، سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

بہار کے سماجی ڈھانچہ کی تشریح کرنے کے لیے ذات سب سے بڑا عنصر ہے۔ لوگ اپنے شریک حیات سے لے کر اپنے نمائندوں کو بھی کم و بیش اپنی ذات سے ہی چنتے ہیں۔ یہاں مانا جاتا ہے کہ ایک ہی ذات کے لوگ دیگر ذات کے لوگوں کے مقابلے میں بہتر سلوک والے اور زیادہ بھروسہ مند ہو سکتے ہیں۔

سیاسی لیڈران (خصوصاً موجودہ برسراقتدار پارٹیوں میں) لوگوں کی اس ذہنیت کو سمجھتے ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو ان کی حقیقی طاقت کے بارے میں بیدار کرنے کے لیے ذات پر مبنی سروے کا سہارا لیا گیا۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور آر جے ڈی لیڈر لالو پرساد یادو بہار میں ذاتوں کے ایکویشن کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تعداد کے بارے میں لوگوں کے درمیان غلط فہمی کو دور کرنے کے مقصد سے 2 اکتوبر کو ذات پر مبنی سروے کے اعداد و شمار جاری کیے۔ اس رپورٹ کے بعد سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ ووٹرس کے ذہن میں تذبذب پیدا کرنے کا امکان بھی اب بہار میں پوری طرح سے ختم ہو گیا۔


بہار حکومت نے 215 ذاتوں اور ان کی حقیقی تعداد کی جانکاری حاصل کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے ذات کا سروے نتیش-لالو کا ماسٹر اسٹروک ثابت ہو سکتا ہے۔ نتیش اور لالو کے لیے ذات پر مبنی سروے منڈل کمیشن کی رپورٹ کے برابر ہے، جو مرکز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وی پی سنگھ نے لایا تھا۔ اس وقت ان کا مقابلہ کانگریس پارٹی سے تھا، جس کی نمائندگی مجموعی طور پر اونچی ذات کے لوگ کرتے تھے۔ اب اونچی ذاتیں بی جے پی کے حقیقی ووٹرس ہیں اور لالو پرساد و نتیش کمار نے بھگوا پارٹی کو شکست دینے کے لیے ذات پر مبنی سروے جاری کیا۔ دونوں جانتے ہیں کہ 2024 کا لوک سبھا انتخاب او بی سی کے ارد گرد لڑا جائے گا۔ پی ایم نریندر مودی ملک اور بہار میں ووٹرس کو لبھانے کے لیے یہ کارڈ کھیلیں گے۔

نتیش اور لالو جانتے تھے کہ بہار میں او بی سی اور ای بی سی کی تعداد زیادہ ہے اور ووٹرس کے درمیان کسی بھی تذبذب سے بچنے کے لیے وہ حقیقی تعداد کے ساتھ آئے۔ علاوہ ازیں وہ نہیں چاہتے تھے کہ بی جے پی او بی سی کے نام پر بہار میں کشمکش والی حالت پیدا کرے۔ آر جے ڈی کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے کہا کہ ’’ذات پر مبنی سروے جاری ہونے کے بعد نریندر مودی ڈر گئے ہیں، اور جس طرح سے وہ اپنے الفاظ کا انتخاب کر رہے ہیں اس سے ان کی بے چینی کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری طرف سماج کا محروم طبقہ بھی تذبذب محسوس کر رہا ہے۔ انھوں نے ملک کی تعمیر میں اپنی محنت کا تعاون دیا ہے۔ لیکن ان کی حالت دوئم درجے کے برابر ہے۔‘‘


گزشتہ کچھ سالوں میں بی جے پی کو اونچی ذاتوں کی پارٹی کی شکل میں جانا جانے لگا ہے۔ وہ بی جے پی کے اصل ووٹرس ہیں اور بہار میں 15.52 فیصد ہیں، جن میں بھومیہار 2.86 فیصد، برہمن 3.66 فیصد، راجپوت 3.45 فیصد اور کایستھ 0.60 فیصد ہیں۔

دوسری طرف نتیش کمار کے اصل ووٹر لو-کُش ایکویشن سے آتے ہیں جہاں ’لو‘ کا مطلب کرمی ہے جن کی تعداد 2.87 فیصد ہے، اور ’کُش‘ کا مطلب ہے کشواہا جو بہار میں 4.21 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ او بی سی اور ای بی سی ووٹرس کے درمیان ان کی مضبوط گرفت ہے۔ لالو پرساد کے پاس مسلم 17.7 فیصد اور یادو 14 فیصد ہیں۔ ایس سی 19 فیصد ای بی سی اور او بی سی کا ایک بڑا ووٹ بینک بھی لالو پرساد کی حمایت کرتا ہے۔ یعنی اس معاملے میں یہ دونوں بی جے پی سے بہت آگے ہیں۔


ماضی میں اونچی ذاتیں، جن کی تعداد کم تھی، او بی سی، ای بی سی اور درج فہرست ذاتوں، جن کی تعداد زیادہ تھی، پر حاوی رہتی تھی۔ لالو پرساد نے ان دبی کچلی ذاتوں کو آواز دی اور سماجی انصاف کے علمبردار بنے۔ نتیش کمار بھی اسی راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ چھوا چھوت اور نسل کشی کا درد اعلیٰ اور پسماندہ ذاتوں کے لوگوں کے دماغ میں ہے۔ انھوں نے بہار میں اپنی اپنی سیاسی پارٹیاں منتخب کر لی ہیں۔ نچلی ذات کے لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی اونچی ذات کی پارٹی ہے اس لیے وہ اس کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی اپنے دم پر بہار میں حکومت بنانے میں ناکام رہی۔ اونچی ذاتوں کے پاس حکومت بنانے کی طاقت نہیں ہے۔ بہار میں بی جے پی اقتدار میں تو رہی، لیکن نتیش کمار کی مدد سے۔

نتیش کمار یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی ذاتی حالت ریاست میں اقتدار محفوظ رکھنے کے لیے کافی نہیں ہوگی، کیونکہ کرمی اور کشواہا بالترتیب 2.87 فیصد اور 4.21 فیصد ہیں اور اس لیے انھوں نے بی جے پی یا آر جے ڈی کی حمایت لی۔ ذات پر مبنی سروے میں لالو پرساد سب سے بڑے استفادہ کنندہ بن کر ابھرے، ان کے حقیقی ووٹرس مسلم 17.7 فیصد اور یادو 14 فیصد تھے۔ سیاسی پارٹیوں کو کم و بیش اپنے اصل ووٹرس کی طاقت کے بارے میں پتہ تھا، لیکن ذات پر مبنی سروے رپورٹ آنے تک ووٹرس کو خود پتہ نہیں تھا۔ اب انھیں اپنی اصل طاقت کا پتہ چل گیا ہے اور اب کسی خاص پارٹی کے ذریعہ غلط فہمی پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔