مودی نے ’ماں گنگا‘ کو بھی دیا دھوکہ، صفائی کے نام پر پھونکے کروڑوں، پھر بھی میلی کی میلی!

گنگا کی قسمیں کھانے والی اور اس کے نام پر سیاست کرنے والے مودی حکومت نے اسے بھی دھوکہ دے دیا ہے، صفائی کے نام پر حکومت کروڑوں روپے پھونک چکی لیکن انجام یہ کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ میلی ہو گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سال 2014 کے انتخابات کے دوران مودی نے جب وارانسی سے کاغذات نامزدگی داخل کئے تھے تو لوگوں، بالخصوص اکثرتی طبقہ کو مائل کرنے کے لئے گنگا کا نام لے کر جذباتی تقریر کی تھی۔ لوگ اس تقریر کو آج تک نہیں بھولے لیکن مودی شاید بھول چکے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے اپنی ’ماں گنگا‘ کی بھی خبرگیری نہیں کی۔ انجام یہ ہے کہ 5 سال کے مودی کے دور حکومت میں گنگا مزید میلی ہو گئی ہے۔

مودی نے وارانسی میں اپنی تقریر میں کہا تھا، ’’پہلے مجھے لگا تھا میں یہاں آیا، یا مجھے پارٹی نے بھیجا ہے۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ میں ماں گنگا کی گود میں لوٹا ہوں۔‘‘ مودی نے کہا تھا، ’’نہ میں آیا ہوں اور نہ ہی مجھے بھیجا گیا ہے دراصل مجھے تو ’ماں گنگا‘ نے بلایا ہے۔‘‘

نریندر مودی نے اپنے پانچ سال میں گنگا کے لئے کیا کیا اب اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ گنگا کو صاف بنانے کے دعوں کی ہوا تو اتراکھنڈ میں ہی نکل جاتی ہے جہاں سے گنگا وجود میں آتی ہے۔ سرکاری ادارے گنگا میں گر رہے نالوں کی ٹیپنگ کر گنگا کی صفائی کا دعوی تو کر رہے ہیں لیکن سیاہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی نالوں اور سیوریجز کی گندگی سیدھے گنگا میں جا کر مل رہی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ پہلے یہ گندگی سیدھے گنگا میں ڈال دی جاتی تھی لیکن اب اسے سیوریج کے پانی کے ساتھ سرکاری خرچ پر گنگا میں ڈالا جا رہا ہے۔

دراصل ٹیپنگ کے نام پر زیادہ تر نالوں کو شہر کے سیوریج سے جوڑ دیا گیا ہے۔ رشی کیش اور ہری دوار میں ایس ٹی پی (سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ) کی صلاحیت روزانہ نکلنے والے پانی کی آدھی مقدار کو ہی صاف کرنے کی ہے، ایسے حالات میں نالوں کے پانی سمیت سیوریج کے پانی کو موٹے سرکاری خرچ پر بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے صاف گنگا کے دعوں کے ساتھ سیدھے گنگا میں بہا دیا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گنگا کو صاف رکھنے کے نام پر کئے جا رہے اس کھیل کو بخوبی جانتے ہوئے بھی تمام ذمہ داران نہ صرف خاموش بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے ہیں۔ اس سارے کھیل نے ہریدوار میں صاف گنگا کے سرکاری منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے، یہاں تک کہ پارلیمانی کمیٹی بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر چکی ہے۔

ہریدوار کی بات کریں تو 45 ایم ایل ڈی (ملین لیٹر ڈیلی) سیوریج کا پانی اور 27 چھوٹے بڑے نالوں کا 35 ایم ایل ڈی گندا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سیدھے گنگا میں ڈالا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے گنگا کی آلودگی میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ صرف سابقہ پارلیمانی کمیٹی اس بات کا اعتراض کر چکی ہے بلکہ این جی ٹی (نیشنل گرین ٹریبیونل) بھی مرکزی اور ریاستی حکومت سے اس حوالہ سے اعتراض کرتے کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔

گنگا کو گندا کر رہے ہریدوار کے 27 میں سے 22 نالوں کو مکمل یا جزوی طور سے ٹیپ کئے جانے کا دعوی گنگا کی یونٹ برائے تعمیر و تحفظ کرتی ہے۔ اس حساب سے اس کے مطابق ہی بقیہ پانچ بڑے نالوں کا پانی سیدھے گنگا میں گر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری دعوں میں ٹیپ کئے گئے 22 نالوں کو پمپنگ اسٹیشن کے ذریعے سیوریج سے جوڑا گیا ہے، جس سے ان کا پانی گنگا میں سیدھے نہ جا کر سیوریج پمپنگ اسٹیشن کو جاتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہریدوار میں روزانہ 110 ایم ایل ڈی سیوریج پانی کا اخراج ہوتا ہے، جس میں ان نالوں کا پانی بھی شامل ہے جبکہ یہاں پر سیوریج پانی کے ٹریٹمنٹ کے لئے قائم شدہ تین ایس ٹی پی کی کل صلاحیت 63 ایم ایل ڈی ہے۔ ایسے ہی بقیہ 47 ایم ایل ڈی پانی بھی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سرکاری خرچ پر سیدھے گنگا میں بہایا جا رہا ہے۔

اس کے برخلاف ذمہ دار سرکاری محکمے اعداد و شمار کی بازی گری کر کے کاغذوں میں 22 نالوں کی ٹیپنگ ظاہر کر کے گنگا میں اس کا پانی نہ جانے کا دعوی کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں صورت حال جوں کی توں بنی ہوئی ہے اور کم و بیش یہی صورت حال رشی کیش کی بھی ہے۔ یہاں پر رشی کیش، پوڑی اور ٹہری سے ملحقہ علاقوں کے 45 نالوں اور سیوریج کے پانی کے ٹریٹمنٹ کے پختہ انتظامات نہیں ہیں۔

کھلے میں گنگا میں گر رہے نالوں کی گندگی کی وائرل ویڈیو کئی مواقع پر حکومت کی سبکی کرا چکی ہے۔ اس کے باوجود ’نرمل گنگا‘ کے سرکاری دعوں میں کہیں کوئی کمی نہیں آئی۔ ریشی کیش کے بالائی علاقہ دیو پریاگ (جہاں الک نندا منداکنی اور بھگیرتھی کے ملنے سے گنگا وجود میں آتی ہے) کے علاوہ ردر پریاگ اور اتر کاشی کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی صاف گنگا کے دعوے صرف اعداد و شمار کی بازی گری ہے اور وہ اب بھی میلی کی میلی ہی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ پہلے یہ لوگوں کی غلطی سے میلی ہوتی رہی ہے اور اب پیسے پھونک کر تیار کئے گئے سرکاری نظام کی وجہ سے یہ میلی ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔