ندائے حق: ہرگھر جل مشن...اسد مرزا

”ملک کے ہر حصے میں پینے کے صاف پانی کی رسائی خوش آئند عزائم میں سے ایک ہے، لیکن اس مشن کی کامیابی کی کلید ہے حکومت اور عوام دونوں کے ہاتھ میں ہے“

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

اسد مرزا

حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا ہے کہ 52 فیصد دیہی گھرانوں کو ان کی چہار دیواری میں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہوچکی ہے۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم، پینے کے پانی کی فراہمی کے پائیداری کے پہلو پر محتاط انداز میں غور کرنے کی ضرورت بھی ہے۔

پینے کا صاف پانی لوگوں کی اہم بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 'پانی زندگی ہے' کیونکہ یہ مجموعی انسانی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ہندوستان کے پاس عالمی انسانی اور مویشیوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے جبکہ اس کے پاس صرف 2 فیصد زمینی اور عالمی میٹھے پانی کے وسائل کا 4 فیصد ہے۔

لیکن دراصل، طلب اور رسد کے درمیانی فرق کو دیگر چیلنجوں کی وجہ نے پیچیدہ بنا دیا ہے جیسے ضرورت سے زیادہ پانی نکالنے کے ذریعے زمینی پانی کی کمی، ناقص ریچارج، کم ذخیرہ کرنے کی گنجائش، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے ترتیب بارشیں، پانی کی آلودگی، پانی کی فراہمی کے ناقص آپریشن اور دیکھ بھال۔

حکومت نے2019 میں جل جیون مشن کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ 2024 تک ہندوستان کے تقریباً 19کروڑ 20 لاکھ دیہی گھرانوں کو پائپ لائن کے ذریعے پانی فراہم کیا جائے گا۔ جب اس کا اعلان کیا گیا تھا تو اس وقت صرف ایک میں سے چھ گھروں میں نل کے ذریعہ پانی آتا تھا۔ یہ شرح اب بہت کم وقت میں 52 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ معلومات ریاست کے دیہی گھرانوں میں 100 فیصد پائپ پانی کی فراہمی کی کوریج کو نشان زد کرنے کے لیے گوا میں ایک پروگرام میں وزیر اعظم کی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سامنے آئی۔


حکومت کی یہ کوشش ایک خوش آئند قدم ہے کیونکہ زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے پائپ کے ذریعے گھروں میں پانی مہیا کرانا بھی شامل ہے۔ جھونپڑیوں اور کچے گھروں میں رہنے والے عام آدمیوں کے لیے یہ ایک عیش و آرام کی چیز ہے۔ لیکن پروگرام کے اگلے نصف حصے میں پیشرفت کی رفتار اس کی قومی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے کے لیے اہم ہو گی، کیونکہ کچھ مشکل ترین خطوں میں انجینئرنگ کی پیچیدہ رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہوگی۔

دراصل اس پورے مشن کی کامیابی کی کلید ریاستی حکومتوں کے پاس ہے۔جس میں ریاستوں کے مالی وعدے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اس مشن کے لیے 3.5 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ 15ویں مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ کے تحت 26,900 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز بھی دستیاب ہیں جو دیہی مقامی حکومتوں کو پانی اور صفائی کے منصوبوں کے لیے خاص طور پر گرانٹس کے طور پر دستیاب ہیں۔ مطالعے سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی تک رسائی میں بہتری کے ساتھ انسانوں کی صحت میں بہتری آئی ہے۔ مزید، نیشنل سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مطابق، پینے کا صاف پانی مہیا کیے جانے والے علاقوں میں 2019 اور 2021 کے درمیان، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے کیسز 66 فیصد کم ہو کر 17.7 ملین سے 5.9 ملین رہ گئے ہیں۔

اگر ہم موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پنجاب، گجرات، ہماچل پردیش اور بہار 90 فیصد سے زیادہ کوریج والی ریاستوں میں شامل ہیں اور اپنے اہداف کے لیے تلنگانہ، گوا، دادرا اور نگر حویلی اور دمن اور دیو اپنے اہداف کی پانے کی جانب تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ تاہم، کچھ ریاستوں میں، پیش رفت متزلزل ہے اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، پورے اترپردیش اور جھارکھنڈ میں کوریج اب بھی 25 فیصد سے کم ہے، جب کہ چھتیس گڑھ، ایم پی، مغربی بنگال اور راجستھان جیسی ریاستیں 13 پسماندہ ریاستوں میں شامل ہیں، جنہیں اب ''فوکس اسٹیٹس'' کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہے۔

پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ ریاستی حکومتیں آزادی کے بعد سے دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے دیہی پانی کی فراہمی کے پروگراموں کو نافذ کر رہی ہیں۔


بلاتعطل پانی کی فراہمی کی پائیداری

دراصل دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی کا کام بنیادی طور پر ہر گاؤں کی پنچایت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں پنچایتوں کو اور زیادہ مستحکم اور مالی اعتبار کے علاوہ انھیں ایسے حقوق بھی دینے ہوں گے کہ وہ ہر شخص تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ جہاں ایک جانب پانی ان کی ملکیت ہے وہیں اس کا بچاؤ بھی ان کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔اور اسی کے ذریعے آپ مختلف دیہاتوں میں پانی کے وسائل کومنصفانہ طریقے سے ہر گھر تک پہنچا سکتے ہیں۔

تاہم ہر گھر جل (HGJ) میں پائیداری کا مسئلہ 2024 کے بعد بھی برقرار رہے گا۔ پانی کی فراہمی کے نفاذ میں پہلے کے تجربات کو نہ دہرانے کے لیے، پنچایتوں کو بااختیار اور ذمہ دار بنانا ہوگا۔ پنچایتوں کی تین سطحوں کو افقی اور عمودی طور پر نیٹ ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارے کے اصول اور طرز عمل زیادہ تر پیچیدہ ہوتے ہیں، ہمیں ان کو لچک دار اور آسان بنانا ہوگا۔ یہاں پینے کے پانی کی پائیداری کے معاملے میں، پنچایتوں کو ادارہ جاتی بنانا ہوگا تاکہ وہ مقامی حکومت بن کر ابھریں۔ اس طرح کے اصولوں کو نافذ کرنا ہوگا کہ گاؤں والے یہ سمجھیں کہ پانی کی فراہمی کے نظام کا مسئلہ ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔

اس لیے اگر پانی کے شعبے میں اداروں کی تشکیل کے عمل کو ادارہ جاتی شکل دی جاتی ہے تو یہ دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی کوفروغ دینے کا سبب بنے گا۔ کیونکہ پانی کی فراہمی کے نظام کا O&M تب پنچایتوں کے لیے زندگی کا راستہ ہوگا۔

حتمی فیصلہ مرکزی اور ریاستی کمیٹیوں کے ذریعے لیا جاسکتا ہے کہ وہ کس طریقے سے پنچایتوں کو پانی کی دستیابی کے لیے خود کفیل بنایا جاسکے، تبھی ہر گھر جل مشن کامیاب ہوسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔