آزادی کی رات: جامعہ کے باہر ہزاروں لوگوں نے منفرد انداز میں کیا نئے سال کا استقبال

جامعہ میں گزشتہ رات بڑی تعداد میں طلباء اور مقامی لوگوں نے نئے سال کے استقبال میں قومی اور انقلابی ترانے گا کر اس رات کو ’آزادی کی رات‘ کے طور پر منا کر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کیا

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

نئے سال کے استقبال کے لئے دنیا میں طرح طرح کی تقریبات ہوتی رہی ہیں لیکن جس انداز میں جامعہ کے باہر طلباء اور مقامی لوگوں نے سال 2020 کا استقبال کیا اس سے خوشی بھی ہوئی اور تشویش بھی۔ خوشی اس لئے کہ جن بچوں کو ہم کل کے ملک کا معمار کہتے ہیں وہ مست نہیں ہیں بلکہ پورے حوش و حواس کے ساتھ اپنے مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے حال کے فیصلوں پر پوری طرح بیدار ہیں۔ تشویش اس لئے کہ ملک کے موجودہ حکمرانوں کو ملک کے مستقبل کے ان معماروں کی بات سمجھ نہیں آ رہی اور وہ ان سے بات بھی کرنا پسند نہیں کر رہے۔ جامعہ کے گیٹ نمبر 7 کے باہر گزشتہ رات بڑی تعداد میں طلباء اور مقامی لوگوں نے نئے سال کے استقبال میں قومی اور انقلابی ترانے گا کر اس رات کو ’آزادی کی رات‘ کے طور پر منا کر شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی کے خلاف اپنا احتجاج درج کیا۔


پورے ملک میں بالخصوص دہلی اور ملک کے بڑے میٹرو شہروں میں نوجوان نئے سال کے استقبال میں سڑکوں پر جشن مناتے ہیں، ہوٹلوں میں گانوں کے بول پر تھرکتے ہیں اور دوستوں کے ساتھ مستیاں کرتے ہیں لیکن جامعہ کے باہر ٹھٹھرتی ٹھند میں جو طلباء آئے تھے وہ قومی اور انقلابی ترانے گا کر حکومت سے شہریت ترمیمی قانون اور مجوزہ این آر سی سے آزادی کے مطالبہ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ آدھی رات تک طلباء دور دراز سے آتے رہے اور وہ اس کڑاکے کی ٹھنڈ میں جلینا سے تقریباً آدھا کیلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے وہاں تک پہنچ رہے تھے۔ بڑی تعداد میں لڑکیاں اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے ساتھ نظر آرہی تھیں۔ ان کے جذبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر نعرہ میں وہ شریک ہو رہی تھیں اور کہیں بھی وہ مستی کرتی ہوئی نظر نہیں آئیں۔

جامعہ کے طلباء کی پوری کوشش یہ تھی کہ ان کی اس احتجاجی آزادی کی رات سے کسی کو پریشانی نہ ہو۔ اس کے لئے انہوں نے اوکھلا کی جانب سے آنے والی سڑک کو ایک رسی سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اپنی تقریب اوکھلا جانے والی سڑک پر منعقد کی تھی۔ رسی کے دونوں طرف طلباء رضاکاروں کی کوشش تھی کہ کسی بھی جگہ جام نہ لگ پائے۔ کچھ لوگوں نے مفت بریانی تقسیم کرنے کا بھی انتظام کر رکھا تا کہ دور سے آنے واے طلباء کو اگر بھوک لگے تو ان کو کہیں جانا نہ پڑے۔ طلباء نے مرکزی بینر پر جلی حروف میں لکھا تھا ’’نئے سال کا عزم‘ ’’New Year Resolution ‘‘ جس میں’S‘ کی جگہ’R‘ لگا کر اس کو’’New Year Revolution ‘‘ کر دیا تھا۔ اس کے نیچے لکھا تھا ’دی آزادی نائٹ‘۔


انتہائی منظم انداز میں لوگوں نے نعرے لگا کر اور انقلابی گانے گا کر اپنا احتجاج درج کیا اور جیسے ہی رات کے بارہ بجے اور نئے سال میں داخل ہوئے تو وہاں موجود لوگوں نے قومی ترانہ گا کر سال نو کا استقبال کیا۔ یہ اپنے آپ میں ایک منفرد طریقہ تھا جس کے ذریعہ طلباء اور شرکاء نے حب الوطنی کی عظیم مثال پیش کی۔ یہاں موجود شرکاء جہاں ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ جیسے انقلابی گانوں میں خود کو کھویا ہوا محسوس کر رہے تھے وہیں سبھی لوگ مدے سے بخوبی واقف نظر آئے اور کئی نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’وہ یہاں نئے سال کی مستی کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ ملک کے اس آئین کی حفاظت اور ہندوستان کے بنیادی نظریہ کو بچانے کے لئے اس ٹھنڈ میں یہاں کھڑے ہیں۔‘‘ کچھ کا کہنا تھا کہ اگر وہ نہیں کھڑے ہوئے تو آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ کچھ ایسا ہی منظر شاہین باغ کے باہر دیکھنے کو ملا جہاں ہزاروں کی تعداد نے قومی ترانہ گا کر نئے سال کا استقبال کیا۔


حقیقت یہ ہے کہ رات کی سردی میں جامعہ کے باہر کھڑے ہو کر اس بات کا یقین ہوا کہ جب تک ہماری نوجوان نسل بیدار ہے جب تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اگر نوجوان اپنی مستیاں اور شوق چھوڑ کر کڑاکے کی ٹھنڈ میں اپنے ملک کے مستقبل کے لئے سڑکوں پر رات گزار سکتے ہیں تو فکر کی زیادہ بات نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */