یوگی حکومت سے مایوس عوام ’برم بابا‘ کی پناہ میں

’برم بابا‘ کو پیش کیا گیا لنگوٹ اور کھڑاؤں (تصویر سوشل میڈیا)
’برم بابا‘ کو پیش کیا گیا لنگوٹ اور کھڑاؤں (تصویر سوشل میڈیا)
user

قومی آوازبیورو

گورکھپور: بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچوں کی اموات کا سلسلہ رُک نہیں رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں میں محکمہ صحت کے تئیں ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا یوگی حکومت پر سے بھروسہ تو اٹھا ہی ہے ساتھ میں ڈاکٹروں سے بھی ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ ریاستی حکومت کی نااہلی اور مقامی انتظامیہ کی بدانتظامی کا ہی نتیجہ ہے کہ مریضوں نے امید کی شمع ’برم بابا‘ میں تلاش کرنا شروع کر دی ہے۔ والدین بھی اپنے بچوں کی زندگی بچانے کی فکر میں ’برم بابا‘ کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ یہ ’برم بابا‘ کوئی سادھو یا فقیر نہیں بلکہ بی آر ڈی میڈیکل کالج کے 100 بستروں والے انسیفلائٹس وارڈ اور 54 بستروں والے وارڈ نمبر 12 کے درمیان بنے رین بسیرے کے آنگن میں واقع ایک چبوترا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ رین بسیرا کی تعمیر 2012 میں سابق ممبر پارلیمنٹ موہن سنگھ نے اپنے ایم پی فنڈ سے کرائی تھی۔ اس کے پاس میں ہی مریضوں کے تیمارداروں کے لیے ہوٹل چلائے جاتے ہیں۔ یہاں پر کچھ وقت پہلے پیپل کا ایک درخت ہوا کرتا تھا جو اب نہیں ہے۔ اس کی جگہ لوگوں نےپیپل اور پاکڑ کا پودا لگا کر چبوترے کی شکل دے دی ہے جسے لوگ ’برم بابا‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک راز ہی ہے کہ اس چبوترے کو ’برم بابا‘ کا نام کیسے ملا اور کب اس پر کھڑاؤں (لکڑی کا چپل) اور لنگوٹ چڑھانے کی روایت شروع ہوئی۔ اس کے بارے میں مکمل اعتماد کے ساتھ کوئی کچھ بھی نہیں کہتا لیکن آنگن میں کینٹین چلانے والے لوگ بتاتے ہیں کہ د و سال قبل کسی نے ’برم بابا‘ کو لنگوٹ اور کھڑاؤں چڑھاتے ہوئے پوجا کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مقبول ہو گیا۔

برم بابا کے سامنے عقیدت سے سر جھکاتی ہوئی ایک خاتون (تصویر سوشل میڈیا)
برم بابا کے سامنے عقیدت سے سر جھکاتی ہوئی ایک خاتون (تصویر سوشل میڈیا)

آج صورت حال یہ ہے کہ 25 سے 30 لوگ روزانہ ’برم بابا‘ کو لنگوٹ اور کھڑاؤں چڑھا کر اپنے بچے کی سلامتی کی منت مانگتے ہیں، گویا ریاستی حکومت اور محکمہ صحت سے زیادہ انھیں ’برم بابا‘ پر بھروسہ ہو گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیکل کالج کے باہر ہی آ پ کو کھڑاؤں اور لنگوٹ کی دکان بھی سجی ہوئی نظر آ جائے گی۔ میڈیکل کالج کے دروازے پر میونسپل کارپوریشن کے رین بسیرا کے پاس دُرگا مندر ہے، وہیں باسو دیو چودھری گمٹی میں ’برم بابا‘ سے منت مانگنے کی اشیاء فروخت ہوتی ہے۔

بی آر ڈی میڈیکل کالج کے 1969 میں قیام کے 11 سال بعد باسو دیو 1980 میں میڈیکل کالج آئے تھے۔ یہیں پر انھوں نے ڈھابہ کھولا۔ دُرگا مندر کی صاف صفائی اور پوجا پاٹھ بھی کرنے لگے۔ اب دُرگا مندر کے پاس ہنومان مندر بن گیا ہے۔ ڈھابہ اب باسو دیو چودھری کا بیٹا چلاتا ہے۔ باسو دیو اب پجاری بن چکے ہیں۔ باسو دیو چودھری ’برم بابا‘ کے چڑھاوے کے سبھی سامان 125 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ اس میں کھڑاؤں، لنگوٹ، اگربتی، کافور سبھی کچھ ہوتا ہے۔ باسو دیو بتاتے ہیں کہ ایک دن میں 25 سے 30 لوگ پوجا کا سامان خریدنے آتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جولائی سے ستمبر کے درمیان ’برم بابا‘ کے بھکتوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ سردی شروع ہوتے ہی اس تعداد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیکل کالج میں بڑی تعداد میں ہو رہی بچوں کی اموات کے بعد لوگوں میں ’برم بابا‘ کے تئیں عقیدت میں اضافہ ہوا ہے۔ باسو دیو کہتے ہیں کہ کھڑاؤں اور لنگوٹ چڑھانے سے بھی بچوں کی موت میں کمی نہیں آ رہی ہے۔

مریض بچوں کے سرپرست تو اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسپتالوں کے چکر بھی کاٹتے ہیں، ڈاکٹروں سے منت و سماجت بھی کرتے ہیں اور ’برم بابا‘ جیسی چیزوں پر اندھی تقلید بھی کرنے لگتے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ کیا یوگی حکومت بھی ’برم بابا‘ کے بھروسے ہی میڈیکل کالج چلانا چاہتی ہے۔ غالباً یوگی حکومت بھی اندھی تقلید کی وجہ سے یہ سمجھ رہی ہے کہ اسپتالوں میں آکسیجن اور دوا کی کوئی ضرورت نہیں، ’برم بابا‘ اور اس جیسی دوسری چیزیں ہی شفا بخشیں گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر مریضوں کا اللہ ہی بھلا کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔